آستین کے سانپ — ضمیر کی عدالت میں پیش کردہ کرداروں کا مقدمہ

شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ 0300-6668477

ادب محض تفریح یا زبان و بیان کی بازی گری نہیں ہوتا، بلکہ یہ شعور کی ترویج، معاشرتی کج رویوں کی نشان دہی اور انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا مؤثر ترین ذریعہ بھی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی ادبی منصوبہ “آستین کے سانپ” جیسے علامتی مگر چبھتے ہوئے عنوان کے تحت سامنے آئے تو اس کی سنجیدگی، معنویت اور مقصدیت پر داد دینا لازم ہو جاتا ہے۔

پہچانِ پاکستان نیوز گروپ کی جانب سے کہانی نویسی کے مقابلے کے بعد “آستین کے سانپ” کے نام سے ایک خوب صورت مجموعے کی صورت میں منتخب کہانیوں کو شائع کرنا ایک ایسا ادبی اور شعوری قدم ہے، جو محض تحریروں کا احاطہ نہیں کرتا بلکہ قارئین کو اپنے اردگرد کے ماحول، رشتوں، تعلقات، اور ناپاک نیتوں کے خفیہ زہر آلود دھاگوں پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
“آستین کے سانپ” کوئی نیا محاورہ نہیں۔ یہ ضرب المثل ہمیں بچپن سے سنائی گئی، مگر اسے محض زبان کا مَثلہ سمجھ کر آگے بڑھ گئے۔ اب جبکہ یہ ایک مکمل ادبی مجموعے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، تو اس کی گہرائی اور چبھن دونوں شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ یہ صرف ان افراد یا کرداروں کی کہانیاں نہیں جنہوں نے فریب دیا، بلکہ یہ ہمارے اپنے تاثر، فیصلے، بھروسے اور غفلت پر بھی ایک غیر محسوس حملہ ہے۔
یہ مجموعہ صرف افسانوں کا جھرمٹ نہیں بلکہ یہ “ضمیر کی عدالت میں پیش کردہ کرداروں کا مقدمہ” ہے۔ ہر کہانی ایک گواہ ہے، ہر کردار ایک دلیل، اور ہر اختتام ایک فیصلہ۔ یہ وہ تحریریں ہیں جو قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ:
کس پر بھروسہ کیا جائے؟
کس کی مسکراہٹ کے پیچھے خنجر چھپا ہے؟
اور سب سے بڑھ کر، کیا ہم خود کہیں کسی کے لیے آستین کا سانپ تو نہیں؟
اس مجموعے کا سب سے نمایاں پہلو اس کا سماجی شعور ہے۔ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں تعلقات بظاہر گہرے مگر درحقیقت سطحی ہو چکے ہیں۔ دوستیاں وقتی مفادات کے گرد گھومتی ہیں، اور قریبی لوگ ہی اکثر پیٹھ میں چھرا گھونپتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں یہ کہانیاں ہمیں صرف دوسروں سے نہیں، خود سے بھی سوال کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
ڈیجیٹل اشاعت — جدید تقاضوں سے ہم آہنگی،ادب کی اشاعت میں آج سب سے بڑا چیلنج اس کی رسائی (accessibility) ہے۔ پہچانِ پاکستان نیوز گروپ نے اس چیلنج کا بہترین حل نکالتے ہوئے اس مجموعے کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو بلاشبہ ایک بصیرت افروز قدم ہے۔ اب بیرونِ ملک مقیم اردو قارئین، نوجوان نسل، اور وہ افراد بھی ان کہانیوں سے استفادہ کر سکیں گے جو کتابی دنیا سے دور ہو چکے تھے۔
یہ منصوبہ صرف ایک کتاب نہیں، بلکہ ایک پلیٹ فارم ہے۔ ایسا پلیٹ فارم جس نے نئے لکھنے والوں کو اظہار کا موقع دیا، اور تجربہ کار قلمکاروں کو اپنا تجربہ نکھارنے کا۔ اس عمل سے نہ صرف ادبی روایات کو فروغ ملا بلکہ معاشرتی تنقید کی ایک نئی جہت بھی سامنے آئی۔
جب کسی ادبی کام کے پیچھے آمنہ منظور اور زکیر احمد بھٹی جیسے با ذوق اور سنجیدہ افراد ہوں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتخاب اور پیشکش کس قدر عرق ریزی سے کی گئی ہوگی۔ آمنہ منظور کا نثری ذوق اور زکیر بھٹی کی تحقیقی گیرائی، اس مجموعے کو ادبی طور پر نکھارنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔”آستین کے سانپ“ محض ایک کہانیوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ضمیر کی عدالت میں پیش کردہ کرداروں کا مقدمہ ہے۔ پہچانِ پاکستان نیوز گروپ نے ایک نہایت حساس مگر حقیقت پر مبنی موضوع کو ادبی پیرائے میں قارئین تک پہنچا کر ایک بیداری کی لہر پیدا کی ہے۔ یہ مجموعہ نہ صرف پڑھنے والوں کو محظوظ کرے گا بلکہ سوچنے پر بھی مجبور کرے گا۔ ڈیجیٹل اشاعت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ گروپ عہدِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ مبارک باد کے مستحق ہیں تمام لکھاری، مرتبین اور انتظامیہ!
تقلید سے انفرادیت تک
آج جب اکثر ادبی منصوبے محض نمائش اور ریٹنگ کے گرد گھومتے ہیں، “آستین کے سانپ” جیسا منصوبہ انفرادیت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ یہ وہ قدم ہے جو باقیوں کے لیے مثال بنے گا، اور آئندہ ہم دیکھیں گے کہ دیگر حلقے بھی اسی نوعیت کے علامتی و اصلاحی مجموعے ترتیب دینے کی کوشش کریں گے۔
ادب کو جب مقصد، نیت اور سچائی کا سہارا حاصل ہو تو وہ ایک تحریک بن جاتا ہے۔ “آستین کے سانپ” ایسی ہی ایک تحریک کی ابتدا ہے۔ یہ صرف کتاب نہیں، ضمیر کا آئینہ ہے، جس میں ہر قاری کو اپنا چہرہ دیکھنے کا موقع ملے گا۔ یہ فیصلہ اب قاری پر ہے کہ وہ اس چہرے کو پہچانتا ہے یا نظرانداز کرتا ہے۔
پہچانِ پاکستان نیوز گروپ، مرتبین، تمام لکھاری، اور منتظمین کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک ہو۔ آپ نے ایک قدم نہیں، ایک بیانیہ تخلیق کیا ہے۔ ایسا بیانیہ جو دیرپا ہوگا، چبھتا رہے گا، اسکی تقلید بھی ہوگی اور شاید کسی کو بدل بھی دے۔۔۔۔

Comments (0)
Add Comment