“”اسرائیل کا ایران پر حملہ، تیسری عالمی جنگ کے خدشات؟””

تحریر: امجد علی

دنیا ایک بار پھر اُس نازک موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں الفاظ کی جگہ بارود بولنے لگا ہے، اور سفارتی بیانیے میزائلوں کی گھن گرج میں دب چکے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی سلگتی زمین پر اسرائیل کا ایران پر براہِ راست حملہ محض دو ممالک کی کشیدگی نہیں، بلکہ ایک ایسا عمل ہے جو پوری دنیا کو ایک وسیع جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ یہ سوال اب باقی نہیں رہا کہ کیا جنگ ہو گی، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسے روکا جا سکتا ہے؟ اور کیا دنیا اس ممکنہ تباہی کے خلاف کوئی اجتماعی قدم اٹھائے گی؟ اسرائیل کا یہ حملہ ایک محدود فوجی کارروائی سے کہیں آگے ہے۔ جس میں جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اس کے علاوہ ایران کے آرمی چیف کے علاوہ 3 کمانڈرز، چھ نیوکلیئر سائنسدان اور 78 شہریوں کو ٹارگٹ کر کے اسرائیل نے ایک غیر معمولی پیغام دیا ہے، کہ وہ خطے میں کسی چیلنج کو باقی نہیں رہنے دے گا۔ دوسری جانب، ایران نے فوری عسکری ردعمل نہیں دیا، جس پر مختلف تجزیے سامنے آ رہے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ ایران کی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر جوابی کارروائی کرے، جبکہ کچھ مبصرین کے مطابق اسرائیل مسلسل قیادت کو ختم کر کے ایران کی حربی صلاحیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا چکا ہے۔
یہ تصادم محض عسکری یا جوہری اختلاف کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک نظریاتی، تہذیبی اور جغرافیائی کشمکش بھی ہے۔ ایران خود کو مزاحمتی بلاک کا مرکز سمجھتا ہے، جو فلسطین، لبنان، شام اور یمن میں اپنے اتحادیوں کے ذریعے اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ دوسری جانب اسرائیل، جسے امریکہ اور مغربی طاقتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، خطے میں اپنی عسکری اور سیاسی برتری کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ایران کی بڑھتی ہوئی جوہری صلاحیت کو وہ اپنے وجود کے لیے ایک حقیقی خطرہ تصور کرتا ہے۔
اسی خطرے کے پیشِ نظر اسرائیل نے “پیشگی جارحیت” (preemptive aggression) کی پالیسی اپناتے ہوئے یہ حملہ کیا ہے۔ آخر کیوں نہ کرتا؟ جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برملا کہا: “میں نے ایران سے کہا، Just do it” — یہ بیان کسی سفارتی لب و لہجے سے خالی، کھلی دھمکی تھا۔ جب امریکہ اس حد تک اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو تو فطری بات ہے کہ اسرائیل بلا جھجک اپنی جارحانہ پالیسیوں کو جاری رکھے گا۔
اگر اس حملے کے محرکات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے، تو واضح ہوتا ہے کہ یہ صرف ایٹمی ہتھیاروں کی آڑ میں کیا گیا اقدام نہیں۔ ممکن ہے اس کے پیچھے اصلحہ منڈیوں کو فعال کرنا، دنیا پر اپنی غنڈہ گردی مسلط کرنا، یا پاکستان و بھارت کے درمیان جاری کشیدگی میں ہتھیاروں کی فروخت کے مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہو پانا بھی کارفرما عوامل ہو سکتے ہیں۔
ایران اگر جواب دیتا ہے تو وہ مختلف راستے اختیار کر سکتا ہے، جن میں حزب اللہ، حماس، حوثی تحریک، اور شامی و عراقی ملیشیاؤں کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈالنا شامل ہو سکتا ہے۔ ان تنظیموں کی موجودگی اسرائیل کے لیے بیک وقت کئی محاذ کھولنے کے مترادف ہو گی۔ خلیج فارس اور بحر احمر میں تیل بردار جہازوں کی راہ داریوں کی بندش عالمی سطح پر منڈیوں کو لرزا سکتی ہے، جس سے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اگر امریکی مفادات یا فوجی اڈے اس تنازع میں براہِ راست متاثر ہوئے، تو امریکہ کی مداخلت ناگزیر ہو جائے گی۔ نیٹو کے رکن ممالک بھی حالات کے دباؤ میں آ کر اس جنگ میں شریک ہو سکتے ہیں۔ روس اور چین، جو ایران کے قریب سمجھے جاتے ہیں، اگر اس تنازع کو اپنے اسٹریٹجک مفادات سے جوڑ دیں، تو یوکرین، تائیوان اور مشرقِ وسطیٰ تین بڑے محاذ عالمی منظرنامے پر ایک ساتھ سرگرم ہو جائیں گے، جو تیسری عالمی جنگ کی ایک واضح پیش گوئی ہو سکتی ہے۔
یورپی یونین اس وقت خود داخلی تضادات کا شکار ہے۔ فرانس اور جرمنی نسبتاً سفارتی راہ کے حامی ہیں، جبکہ برطانیہ کھل کر امریکی پالیسی کے ساتھ کھڑا ہے۔ اگر حالات مزید بگڑتے ہیں تو یہ اختلافات بھی ختم ہو سکتے ہیں اور پورا یورپ کسی نہ کسی صورت اس جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، اور امریکہ کسی کو بھی space نہیں دے رہا۔ عجب طریقے سے ڈانٹ ڈپٹ کی روش اختیار کیے ہوئے ہے۔

تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں محض معمولی جھڑپوں سے شروع ہوئیں، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا ایک خونی بھنور میں جا پھنسی۔ آج ہم ایک بار پھر ویسے ہی نازک موڑ پر کھڑے ہیں، جہاں کسی ایک ڈرون حملے، سائبر جنگ، یا تیل کی ترسیل میں رکاوٹ پوری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

حالیہ واقعات نے اسی اندیشے کو زندہ کر دیا ہے۔ رات گئے ایران نے اسرائیل پر میزائل حملہ کیا، جس پر اسرائیلی دعویٰ ہے کہ انہوں نے بیشتر میزائل فضاء میں ہی ناکارہ بنا دیے۔ دوسری جانب ایرانی حکام کا مؤقف ہے کہ ان کے میزائلوں نے اپنے مقررہ اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔

اب وقت کی اہم ضرورت ہے کہ عالمی ادارے جیسے اقوامِ متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اور دیگر قوتیں اپنی کاوشوں کو محض “تشویش” تک محدود نہ رہیں بلکہ فوری عملی اقدامات کریں۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرے، ایران کے ساتھ فوری ثالثی کا عمل شروع کرے اور امن کو ممکن بنانے کے لیے ایک متحدہ سفارتی محاذ قائم کرے۔ کیونکہ اگر آج خاموشی رہی تو کل تاریخ خاموش نہیں ہو گی۔ اور اگر انسانیت نے بروقت ہوش نہ لیا تو ایک بھیڑیا پوری بستی کو نگل سکتا ہے، جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ آج فیصلہ تاریخ نے نہیں، انسان نے کرنا ہے کہ آیا ہم خود کو بچانا چاہتے ہیں یا پھر خود کو تاریخ کا محض ایک اور خونی باب بنانے پر آمادہ ہیں۔
ایران جوابی صلاحیت کو دیکھیں تو صورت اتنی حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ گو ایران کی تاریخ بہت مضبوط ہے

Comments (0)
Add Comment