نشہ۔۔۔ ایک اجتماعی خود کشی

تحریر، محمد ندیم بھٹی

لاھور جو ایک طرف علم، تہذیب اور ثقافت کا گہوارہ سمجھا جاتا ھے وہیں دوسری طرف اس شہر کی گلیوں، بازاروں اور چوراھوں پر ایک زہریلا خاموش طوفان تیزی سے پھیل رہا ھے۔ یہ طوفان گٹکے اور مین پوری کے نام سے جانا جاتا ھے۔ ایک وقت تھا جب یہ مہلک نشہ مخصوص علاقوں اور مخصوص طبقات تک محدود تھا، مگر اب صورتحال یہ ھے کہ لاہور شہر کے گلی کوچوں میں بچوں سے لے کر نوجوانوں، رکشہ ڈرائیوروں، ریڑھی بانوں اور مزدوروں ،سیل مینوں تک، ہر عمر اور ہر طبقے کے افراد اس لعنت میں گرفتار نظر آتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ھے کہ قانون کی موجودگی کے باوجود گٹکا اور مین پوری کی فروخت مکمل آزادی کے ساتھ جاری ھے۔ ان اشیاء پر قانونی پابندی ھے، مگر یہ کہاں بیچا جا رہا ھے؟ عام دکانوں پر، پان شاپس پر، سبزی مارکیٹوں میں، لاری اڈوں پر، تعلیمی اداروں کے اردگرد اور یہاں تک کہ رہائشی علاقوں کی جنرل سٹورز پر۔ان نشہ آور اشیاء کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزاء جیسے کہ چونا، کتھا، تمباکو، خوشبو دار کیمیکل اور دیگر زہریلے مرکبات نہ صرف منہ، گلا، معدہ اور جگر کو متاثر کرتے ہیں بلکہ رفتہ رفتہ منہ کے کینسر کا سبب بھی بنتے ہیں۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے منہ کے سرطان کے کیسز کی ایک بڑی وجہ یہی گٹکا اور مین پوری ھے، جسے عام طور پر لوگ “نشہ” نہیں سمجھتے بلکہ “عادت” قرار دیتے ہیں۔
ان اشیاء کے استعمال سے نوجوان نسل کی ذہنی و جسمانی صحت تباہ ھو رھی ھے۔ کچھ لوگ موٹے ھوتے جا رھے ہیں اور کچھ لوگ کمزور ہوتے جا رھے ہیں۔ نشہ کی زیادتی ذھنی تناو کی وجہ سے اپنی بیوی بہن بھائی اور اپنے والدین تک کو تشد د کا نشانہ بناتے ہیں جن سے ان کے اپنے بچوں کی نگہداشت بھی سوالیہ نشان بن رھی ھے۔ تعلیمی کارکردگی کا معیار گرتا جا رھا ھے، اور منفی رجحانات فروغ پا رھے ہیں۔ خاص طور پر سکول اور کالج کے باہر پان فروش چھوٹے سائز کے رنگین پیکٹوں میں گٹکا بیچتے ہیں، جو اپنے چمکدار ڈیزائن اور مصنوعی خوشبو کی بدولت بچوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔
سوال یہ ھے کہ اگر گٹکا اور مین پوری قانوناً ممنوعہ اشیاء ہیں تو پھر یہ بازار میں کس کی اجازت سے فروخت ھو رہی ہیں؟ کیا انتظامیہ، پولیس، یا ضلعی حکومت اس سے لاعلم ھے؟ ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ھے کہ لاہور شہر کے تھانوں کی ناک کے نیچے اور بعض اوقات انہی کے “تحفظ” میں یہ دھندہ برسوں سے جاری ھے۔ کئی جگہوں پر پولیس اہلکار خود ان دکانداروں سے ماہانہ بھتہ لیتے ہیں تاکہ ان کی دکان پر چھاپہ نہ مارا جائے۔
یہ ایک کھلا راز ھے کہ تھانہ انارکلی، لوہاری گیٹ، لٹن روڈ، داتا دربار، اقبال ٹاون،گلشن اقبال شادباغ، گڑھی شاہو، ہنجروال، اکبری منڈی، سبزی منڈی بادامی باغ، بیگم کوٹ اور شاہدرہ کے کئی علاقوں میں گٹکا اور مین پوری کی کھلے عام فروخت ہو رھی ھے۔
چند دکانوں پر چھاپے، چند گھنٹے حوالات، کچھ گٹکے ضبط، اور پھر وھی دکاندار اپنی مارکیٹ یونین کے( چکڑ چوہدری) صدر کی وجہ سے چھوٹ جاتا ھے اور دوبارہ اپنا کاروبار شروع کر دیتا ھے۔ اس سسٹم میں کہیں بھی سنجیدگی، مستقل مزاجی اور نیت کی کمی ھے۔ حکومت پنجاب نے چند ماہ قبل ایک مہم کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد گٹکا، مین پوری، شیشہ، اور دیگر مضر صحت اشیاء کی روک تھام تھا۔ اب یہ تمام چیزیں چائے قوالی نائٹ کے نام سے منسلک چائے کے کیفے میں دستیاب ہیں۔ مہم کے دوران کچھ حد تک کاروائیاں ہوئیں، لیکن وہ بھی وقتی ثابت ہوئیں۔ نہ کوئی ٹھوس قانون سازی کی گئی، نہ ہی انسداد کے لیے مستقل ادارہ بنایا گیا۔ بلکہ ان چائے خانوں کے وقت میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ کچھ کیفے تو مقامی افراد کا سکوں لوٹ کر فجر کی نماز کے بعد ہی بند ھوتے ہیں۔ پولیس کی تو خیر ھے اس کی نائٹ پیٹرولنگ کرنے والا کسی رینٹ اے کار کے فراہم کردہ ائر کنڈیشنز والے کمرے میں سو کر گزار ھی لیتا ھے اگر مذہبی جماعتوں کے ڈنڈوں کا ڈرنا ھو تو نماز کے وقفے بھی خاطر میں نا لائے جائیں ،وجہ صرف شراب ، چرس نشہ آور شیشہ،اور گٹکا ، سمیت نشہ آور چیزوں کا کھلا استعمال ھے۔
حیرت کی بات یہ ھے یہ تمام مواد اور گٹکا اور مین پوری کی تیاری اب لاہور شہر میں بھی ھو رہی ھے۔ کئی چھوٹے گھروں اور دکانوں میں غیرقانونی طور پر ان اشیاء کی تیاری کا عمل جاری ھے۔ یہ غیر قانونی “کارخانے” دن رات کام کر رھے ہیں۔ ان کی نہ صرف پیداوار جاری ھے بلکہ یہ اپنے مخصوص ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے شہر کے مختلف علاقوں میں سپلائی بھی کرتے ہیں۔
اس سارے منظرنامے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ وہ ھے جو نہایت کمزور، غریب اور ناتجربہ کار ھے۔ دیہاڑی دار مزدور جو دن بھر کی تھکن اتارنے کے لیے گٹکے کا سہارا لیتے ہیں، وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ زہر ان کے جسم کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ھے۔ وہ نوجوان جو خود کو اسٹائلش ظاہر کرنے کے لیے اسے چباتے ہیں، وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ مستقبل میں ان کی ہڈیوں تک کو کھا جائے گا۔
اس لعنت کی روک تھام کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر اٹھنا ھو گا۔ صرف پولیس یا حکومت پر چھوڑ دینا مسئلے کا حل نہیں۔ ہر محلے میں کمیونٹی واچ گروپ بننے چاہئیں، جو دکانداروں کو گٹکا فروخت نہ کرنے پر مجبور کریں۔ سکولوں اور کالجوں میں آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے کہ گٹکا ایک نشہ ھے، نہ کہ صرف ایک چبانے والی چیز۔ تمام میڈیا کو چاہیے کہ اس مہم میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے، اور ایسے دکانداروں اور ان کے سہولت کاروں کو بے نقاب کرے۔
اس کے ساتھ ساتھ عدالتوں کو بھی فوری انصاف فراہم کرنا ہو گا۔ جو لوگ گٹکا بیچتے ہیں، ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ صرف جرمانہ کافی نہیں، قید کی سزا بھی ضروری ھے تاکہ دوسروں کے

Comments (0)
Add Comment