ٹاک آ ف دی ٹاون

جمع تفریق۔۔۔ ناصر نقوی

ایک نجی ٹی وی کے،، عید شو ،،میں سینیئرز اور ممتاز شخصیات کو بٹھا کر جونئیر سے ان کی تذلیل کرائی گئی ،ایسا اتفاقا ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت کیا اور کرایا گیا کیونکہ ان کی خواہش یہی تھی کہ ،،عید شو،، کسی نہ کسی طرح ہنگامہ خیز ثابت ہو ،سو ہو گیا سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہے لیکن بحث و مباحثے میں زیر بحث یہ ہے کہ کیا غلط ہوا؟ کیا درست؟ غلطی اداکارہ فضا علی کی ہے کہ کامران شاہد کی یا پھر پروڈیوسر اور سکرپٹ رائٹر کی ,اگر فضا علی اور کامران شاہد پر الزام لگایا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی چینل پر کوئی بھی پروگرام صرف میزبانوں کی مرضی سے نہیں چلتا پروگرام بہت زیادہ مقبول ہو کہ فلاپ, اس کی تیاری سے لے کر نشر ہونے تک کئی مراحل ہوتے ہیں پھر ایسا کیوں ہوا ؟جواب سیدھا سادہ ایک ہی ہے کہ اس،، عید شو،، کی منصوبہ بندی ہی ایسی تھی جو تھوڑی بہت رکاوٹوں کے بعد مکمل کر لی گئی اس معاملے میں پوری ٹیم ذمہ دار ہے کیونکہ کسی کو اس پروگرام میں کچھ برا نہیں لگا اور برا لگتا بھی کیسے منصوبہ بندی ہی ایک متنازعہ پروگرام کی کی ہوئی تھی، ہاں اس میں انہونی صرف ایک ہوئی کہ گلوکار جواد احمد نے بڑے دل کا مظاہرہ کیا انہیں دوران ریکارڈنگ بتایا گیا کہ صحافی ارشاد بھٹی کو آ پ کا اختلاف پسند نہیں آ یا لہذا ملک کے اس عظیم بناسپتی صحافی نے آ پ کی موجودگی میں بیٹھنے سے انکار کر دیا لہذا آ پ اس پروگرام میں کباب میں ہڈی نہ بنیں اور چلے جائیں ،جواد احمد پڑھی لکھی خاندانی شخصیت ہونے کے باعث رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی سے چلے گئے، حالانکہ وہ جائز ناجائز کا فیصلہ موقع پر کرنے کے عادی ھیں، وہ کینہ پر ہرگز نہیں، لگی لپٹی بھی نہیں رکھتے، جائے حادثہ پر ہی حساب کتاب چکا لینے کے عادی ھیں پھر بھی انہوں نے اپنے اپ کو کنٹرول کیا کسی قسم کی بد نظمی پیدا نہیں کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ،، عید شو،، ریکارڈنگ کے بعد نشر ہوا لائیو ہرگز نہیں تھا ،اس کا مطلب یہی ہے کہ انتظامیہ اور سکرپٹ کے مطابق سب اچھا تھا ورنہ ناپسند گفتگو اور سوال و جواب ایڈیٹنگ میں نکال دیے جاتے ہیں سہیل وڑائچ کو کون کتنا بڑا صحافی سمجھتا ہے اس بات سے قطع نظر، وہ ملک کے جانے پہچانے صحافی، تجزیہ کار اور اینکر
پرسن ہیں، آ پ کو پسند ہیں کہ نہیں ، اس بات کی کوئی حیثیت نہیں، جب ہی تو ،،عید شو،، سجانے کے لیے انہیں مدعو کیاگیا انہوں نے بھی بڑے پن کا مظاہرہ کیا کھلے تضاد کے باوجود اپنے مخصوص انداز میں ہنس کر قابل اعتراض لمحات گزار دیے لیکن جناب مجیب الرحمن شامی بھی ان حالات سے محظوظ ہوتے رہے ، کامران شاہد صاحب کی غیر ذمہ دارانہ حرکت یہ تھی کہ وہ خود تعلیم و تدریس سے منسلک ہونے کے باوجود ایک استاد سہیل وڑائچ کی بے توقیری پر خوش ہوئے، فضا علی اداکارہ اور کمپیئر ہیں اگر انہیں یہ نہ بھی پتہ ہو کہ سہیل وڑائج صحافت میں آ نے سے پہلے لاہور کی ایک ممتاز درسگاہ میں پڑھاتے تھے تو کوئی بات نہیں، لیکن سوال یہی ہے کہ سکرپٹ رائٹر، پروڈیوسر، ڈائریکٹر پروگرام سب نے آ نکھیں کیوں بند کرلیں،باادب،بامراد سہیل احمد عرف عزیزی بھی اسی ادارے میں شعبہ پروگرام میں اہم ذمہ داری نبھا رہے ہیں جس قدر وہ اپنے بڑوں اور ساتھیوں کا احترام کرتے ہیں کئی دوسرے نہیں کرتے، پھر بھی ،،اون سکرین،، عید کی خوشی میں بڑے بڑوں کی بے عزتی بڑی شان کے ساتھ کی گئی اور ذمہ داروں اسے مزاح کا نام دے دیا ،اگر ہمارے پڑھے لکھے طبقے کے لوگ صرف داد لینے کے لیے,,Below The Belt کھیلنا حق سمجھیں گے تو پھر اسٹیج اور کامیڈی شوز کے مزاحیہ اداکاروں پر ذو معنی اور غیر معیاری جملوں پر اعتراض کیسا؟
ہمارے ساتھی شہباز انور خان نے بھی اس بات کی نشاندہی کی کہ دنگا فساد اور ریسلنگ ،،ٹاک شو ،،میں بکثرت دیکھنے کو ملتی ہے لیکن کسی سطح پر بھی اس بدچلنی پر قابو پانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی، ذو معنی جملوں کا تبادلہ، گالم گلوچ، تھپڑوں،مکوں اور گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے کا رواج عام ہو چکا ہے لیکن سچ یہی ہے کہ ایسے پروگراموں کو بھی اہل سیاست و صحافت نے انجوائے ہی کیا اگر روز اول ہی اس کی نفی سنجیدگی سے کر دی جاتی تو یقینا یہ نوبت کبھی نہ آ تی بلکہ ابھی وقت ہے کہ اس برائی کو روکنے کے لیے سنجیدہ کوشش کی جائے ورنہ یہ طوفان بدتمیزی سیاست اور صحافت کی رہی سہی عزت کو بھی تار تار کر دے گا ،پنجاب یونین آ ف جرنلسٹس کے صدر نعیم حنیف اور سیکرٹری قمرالز مان بھٹی نے متعلقہ ٹی۔ وی انتظامی سے مطالبہ کیا ہے کہ کامران شاہد اور فضا علی،، عید شو،، کے تمام مہمانوں خصوصا سہیل وڑائچ، شامی صاحب سے اپنے کیے کی معافی مانگیں اور برسوں کی ریاضت کرنے والے صحافیوں کے مد مقابل نام نہاد ڈیوٹی فل صحافی نما سیاسی اور مفادات کے غلاموں کو ایک ساتھ نہ بٹھائیں ، ہمارا نظریاتی اور مالکانہ اختلاف مجیب الرحمن شامی صاحب سے ہے اور شاید ہمیشہ رہے گا لیکن اس اختلاف کے باوجود ہم کسی بھی حالت میں اپنے سینئر سے بد زبانی اور اخلاق سے گری بات کرنے کی اجازت نہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی خود کوئی ایسا انداز اپنا سکتے ھیں شامی صاحب اور ان کے ہمصر صحافیوں کی موجودگی اہل صحافت کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں، ان شخصیات نے جنرل ایوب خان کے دور حکومت سے اب تک سیاست و صحافت میں ہر اتار چڑھاؤ کو دیکھا، سہیل وڑائچ بھی تحقیقی رپورٹنگ اور فیچر رائٹینگ کے علاوہ اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے ان گنت انٹرویو کر چکے ہیں ان کی تحریر کردہ کتب بھی کسی اہم ذخیرے سے کم نہیں ، ایسے میں تاریخ کا جبر یہ ہے

Comments (0)
Add Comment