جب قانون کے ساتھ کھلواڑ کر کے پنجاب ٹریفک پولیس100 ارب ماہانہ کے قریب کمائی کر رہی ہے تو قانون کی پاسداری کرکے وہ اپنی “ایزی منی” اور “پکی روزی” پر لات کیوں ماریں گے۔ چھوٹے سے چھوٹے ضلع کی ٹریفک پولیس بھی کروڑوں روپے ماہانہ ہاتھ مارتی ہے جبکہ بڑے اضلاع میں یہ رقم ماہانہ اربوں روپے میں ہوتی ہے.
میرے کالم کی وساطت سے طلبہ و طالبات نے وزیراعلیٰ پنجاب سے ٹریفک پولیس کے رویوں کی شکایت کرتے ہوئے وارڈنز کو باڈی کیم لگانے کی تجویز دی تھی اور ساتھ یہ بھی گزارش کی تھی کہ ٹریفک وارڈن کو طلبہ کے خلاف ایف آئی آر کی اندراج سے روکا جائے۔ طلبہ کی اپیل پر فوری ایکشن لیتے ہوئے اگلے ہی دن وزیراعلیٰ پنجاب نے ٹریفک مینجمنٹ پر میٹنگ کال میں ٹریفک وارڈنز کے رویوں میں بہتری اور فوری طور پر باڈی کیم لگانے کا حکم دیا تھا۔
سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے دو دوست الیکٹریکل انجینئرحمزہ اور انٹرنیشنل ریلیشن میں ماسٹر کرنے والا شیراز سی ایس ایس کرنے کا خواب لیے امتحان کی تیاری کیلئے لاہور مقیم ہیں۔
مڈل کلاس خاندان کے یہ بچے سستا ڈنر کرنے کیلئے مزنگ پراٹھے کا رخ کرتے ہیں اور مذید بچت کیلئے مزنگ پراٹھا کے ساتھ عابد مارکیٹ کارنر والے کھوکھے سے کولڈ ڈرنک لینے کیلئے گئے تو چند میٹر کا رانگ وے اختیار کرنے پر ٹریفک پولیس نے ایف آئی آر دے دی۔ رانگ وے پر چالان کی سہولت موجود ہے تو ایف آئی آر کا اندراج لازم کیوں؟ جب طالب علم درخواست کرتے رہے کہ ہم بوتل لینے آئے ہیں غلطی ہوگئی تو انہیں جرمانہ کرکے بھی سبق دیا جاسکتا تھا کہ نا کہ ایف آئی آر کرکے بچوں کا ریکارڈ کالا کرنا ضروری تھا۔ میڈم وزیراعلیٰ نے ٹریفک قوانین کے خلاف ورزی پر جرمانوں میں اضافہ کرکے اچھا فیصلہ کیا ہے تاکہ شہریوں میں قانون کا ڈر اور ٹریفک قوانین کی پاسداری کا جذبہ پیدا ہو۔ لیکن گزارش ہے کہ قانون کا اطلاق صرف معزز شہریوں پر ہی کیوں؟ اسی عابد مارکیٹ کا جائزہ لے لیں، ناجائز پارکنگ، رکشوں اور لوڈر گاڑیوں کا رانگ وے استعمال کی وجہ سے ہر وقت ٹریفک جام رہنا معمول ہے لیکن انکے خلاف کوئی کاروائی نہیں، یہی صورت حال باقی لاہور اور پورے پنجاب کی ہے۔
ٹریفک پولیس کے اس اندھے پن کا علاج میری سمجھ سے باہر ہے جنہیں بغیر ہیلمٹ اور بنا بیلٹ والے عام شہری تو نظر آ جاتے ہیں لیکن بنا نمبر پلیٹ والے پبلک ٹرانسپورٹر اور سرکاری گاڑیاں نہیں۔
اگر کسی کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہئے تو ان ٹریفک پولیس والوں کے خلاف ہونا چاہئے جو اس سرکاری وردی کو داغدار کرکے ناجائز پارکنگ مافیا اور بلانمبر پلیٹ ٹرانسپورٹرز کی سرپرستی کرتے ہیں۔
آئی جی پنجاب کو چاہئے کہ وزیراعلیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تمام ٹریفک اہلکاروں کو باڈی کیم لگائے جائیں اور انسپکٹر سے نچلے رینک تک دوران ڈیوٹی سمارٹ فون کے استعمال پر پابندی لگائی جائے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے بنا نمبر پلیٹ رکشوں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کے خلاف بھی بلا تفریق کاروائی کا حکم صادر کیا تھا۔ میڈم وزیراعلیٰ آپ کے حکم کے باوجود بلانمبر پلیٹ پبلک و پرئیویٹ نمبرز کے خلاف کاروائی نہیں کی جارہی وجہ وہی ہے کہ کاروائی نہ کرنے کے بدلے ہزار روپے فی رکشہ و دو ہزار روپے مزدہ بس ملتا ہے جبکہ کاروائی کرکے ریگولر کمائی کا خاتمہ۔ میڈم وزیراعلیٰ اور آئی جی پنجاب کو چاہئے کہ ایک سال سے زائد عرصہ سے آپ ٹریفک پولیس کی منتیں ترلے کرکے اپنا وقت ضائع کرتے رہے اور یہی بنا نمبر پلیٹ ٹرانسپورٹ چوری، ڈکیتی، اغوا، قتل و دہشت گردی کیلئے استعمال ہوتے آرہے ہیں۔ ہر طرح کی مبہم و بنا نمبر پلیٹ گاڑیوں کے خلاف کاروائی کا اختیار پولیس اور سی سی ڈی کو دیا جائے کیونکہ بغیر شناخت سڑک پر آنا بھی سنگین جرم اور دہشت گردی کے مترادف ہے۔
گزشتہ آرٹیکل میں فوڈ اتھارٹی کے حوالے سے ذکر کیا تو سینکڑوں شہریوں نے کیمیکل ملے جعلی دودھ، مردہ جانوروں کے گوشت اور ایکسپائر اشیاء کی سر عام فروخت پر فوڈ اتھارٹی کی لاپرواہی، ملاوٹ اور گراں فروش مافیا کی سرپرستی کی شکایات کے دھیڑ لگا دیے۔
وزیراعلیٰ کمپلینٹ سیل کو مزید فعال اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ کمپلینٹ سیل کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ہر محکمے کے خلاف شکایات کیلئے بیوروکریسی کی بجائے ریٹائرڈ آرمی افسران یا نئے سول افسر بھرتی کیے جائیں جو ایمانداری سے وزیراعلیٰ تک رپورٹ پہنچائیں نہیں تو وہی ہوگا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ بیج میٹ اور سنئیر افسر کی وجہ سے شکایات ردی کی ٹوکری کی نظر ہوجائیں گی۔