گزشتہ روز وزیراعظم فرما رہے تھے کہ زراعت کا ملکی ترقی میں قلیدی کردار ہے یہ سن کر میرا تو ہاسا ہی نکل گیا میرے خیال میں میرے وزیراعظم کو ایئر کنڈیشن دفتر اور ڈالے والے بابو ہر چیز میں اوکے کی رپورٹ پیش کر رہے ہیں جن پر یقین کر کے وزیراعظم میڈیا پر آ کر ایسے لطیفے سناتے ہیں جناب محترم میرا خیال ہے کہ آج کل آپ سرکار بذات خود عوام میں نہیں نکل رہے اگر نکلتے ہوتے تو زمینی حقائق سے واقف ہوتے چلیں میں اصل حقائق آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں
جب سے آپ وزیراعظم بنے ہیں میرے کسانوں نے خوشی کا کوئی دن نہیں دیکھا آپ کی حکومت کے پہلے اٹھارہ ماہ اور اب کا یہ سال کسانوں کو برباد کر گیا
حالانکہ پی ٹی آئی کا دور پاکستان کی تاریخ کا ہر لحاظ سے سیاہ ترین دور تھا لیکن تب بھی کسان خوشحال تھا
جناب وزیراعظم میرے کسانوں کی پہلی فصل سیلاب لے گیا دوسری فصل زیادہ بارشوں کی نظر ہوگی تیسری فصل کاٹن کی آئی لیکن خریددار نہ ملا چوتھی فصل مکئی کی آگئی حالات پھر وہی رہے اور اب کی بار پنجاب حکومت کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے گندم برباد ہو گئی لیکن میرے وزیراعظم مطمئن اور پرسکون ہیں کیونکہ کسانوں کو سہولیات فراہم کرنا حکومت پنجاب کی ذمہ داری ہے آپ سے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ دوبارہ کبھی ایسے خیالات کا اظہار مت فرمائیے گا لوگ آپ پر ہنسیں گے
جناب وزیراعلی آپ بھی کسانوں کو سہولیات فراہم کرنے کی دعویدار ہیں آپ بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بار ہا فرما چکی ہیں کہ حکومت کسانوں کی بحالی کے لیے کسان کارڈ ،فری سولر سسٹم، فری ٹریکٹر دے رہی ہے جب آپ ان سکیموں کا اعلان فرما رہی تھیں تو میں بار بار اپنے کالمز اور ویڈیوز کے ذریعے آپ کی خدمت میں قابل عمل تجاویز پیش کرتا رہا لیکن
آپ کو کسانوں کی مدد کے ساتھ تشہیر کی بھی ضرورت تھی اور شاید میری تجاویز میں وہ نہیں تھی اب آپ خود حساب لگا لیں کہ آپ کے کسان کارڈ ،ٹریکٹر اور سولر سکیم پر اگر پانچ ارب خرچ ہوئے تو اس کا فائدہ صرف چند ہزار کسانوں کو ہوا لیکن اگر یہی رقم کسانوں کو بیج کھاد اور ڈیزل کی مد میں دے دی جاتی تو سارا پنجاب مستفید ہو سکتا تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا ابھی بھی وقت ہے کسان پاکستانی معاشرے میں واحد طبقہ ہے جو اللہ کی رضا پر جلد راضی ہو جاتا ہے اگر اب بھی حکومت پنجاب ازسرے نو کسانوں کے مسائل
کا جائزہ لے اور ان کے لیے اس جمود کی کیفیت سے نکلنے کا راستہ تلاش کر لے تو یہ گزرے وقت کو اللہ کی رضا سمجھ کر بہت جلد بھول جائیں گے
جناب وزیراعلی سب سے پہلے تو آپ کے علم میں ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں وطن عزیز سر فہرست ہے لیکن ابھی تک ان تبدیلیوں سے مطابقت رکھنے والے بیچ متعارف نہیں ہو سکے جن کی نئی ورائٹی بہت پہلے آ جانی چاہیے تھی ہمارے ادارے جن میں نیشنل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر، فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن، پنجاب سیڈ کارپوریشن، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ،
ایوب ریسرچ سینٹر، کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان، کاٹن ریسرچ اسٹیشن خانپور ان تمام اداروں میں ہمارے ہزاروں کی تعداد میں ریسرچر اور ملازمین جو ماہانہ کروڑوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں ابھی تک آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ان سے پوچھیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کو چار سال سے متاثر کر رہی ہیں ابھی تک
کسانوں کے لیے موسمی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کون سے بیچ کی ورائٹی متعارف کروائی ہے جس سے فصل کے نتائج بہتر حاصل کیے جا سکیں میرے خیال میں کوئی بھی نہیں
جناب وزیراعلی جیسا کہ ہمیں اب عادت ہو گئی ہے کہ ہم نئی سے نئی ٹیکنالوجی چین سے حاصل کر لیتے ہیں تو ان اداروں کو بند کر دیں اور جدید ریسرچ کے حامل بیج چین سے درآمد کر لیں یا پھر انہی اداروں سے کچھ منتخب لوگوں کو چین ریسرچ کے لیے بھیج دیں اور اس کے ساتھ ہماری مقامی کھاد ساز کمپنیوں سے میٹنگ کریں اگر وہ یوریا اور ڈی اے پی سستی نہیں بنا سکتے تو یہ بھی چین سے درآمد کر لیں یہ کیسی بے حسی ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک میں یوریا کی بوری تین سواور ڈی اے پی کی بوری بارہ سو روپے میں مل رہی ہے جبکہ ہم یہی پروڈکٹ ہزاروں روپے میں خرید رہے ہیں اسی طرح کسان کارڈ گرین ٹریکٹر سکیم اور سولر سکیم کو فل فور بند کر دیا جائے ہم ٹیوب ویل کی وجہ سے زمینی پانی کا لیول تیزی سے کم کر رہے ہیں سولر ٹیوب ویل سے پہلے کسانوں کو آسان اقساط پر ڈرپ ایریگیشن سسٹم ، پیوٹ سسٹم، رین گن سسٹم دیں اور انہیں ذہنی طور پر جدید کاشتکاری کے لیے تیار کریں تاکہ کم پانی کے استعمال سے بھی اچھی فصل حاصل کی جا سکے اور اس کے ساتھ زیر زمین پانی کا لیول بہتر کرنے کے لیے تیزی سے کنویں کھودے جائیں تاکہ بارشوں سیلابوں اور نہری پانی سے زمین کو ری فل کیا جا سکے اس کے ساتھ چین کی طرز پر تمام زرعی اجناس کی خریداری حکومت کی ذمہ داری ہو تاکہ کسان پر اعتماد ہو کر کاشتکاری کر سکیں حکومت پنجاب خود کسانوں سے گندم خرید ے صوبے کی ضرورت کی
محفوظ کر کے باقی ایکسپورٹ کر دے گندم ایکسپورٹ سے حاصل ہونے والی
آمدنی میں سے اصل انویسٹمنٹ نکال کر باقی رقم دوبارہ سے کسانوں کو سبسڈی کی مد میں دے دی جائے بالکل اسی طرح کاٹن ،مکئی، تل، دالیں گنا اور تمام اجناس کی خریدداری حکومت اپنے ذمے لے تاکہ ایک مخصوص قیمت میں اجناس باعزت فروخت ہو سکیں اس سال جتنی بے قدری گندم کی ہوئی ہے میں خوفزدہ ہوں کیونکہ رزق کی بے قدری اگر اللہ کریم کو ناگوار گزر گئی توکہیں ایسا نہ ہو کہ میرا رب زمین کو حکم صادر فرما دے کہ اس بے قدری