*اک آشنا سی روشنی سارے مکاں میں ہے*

ڈاکٹر سعدیہ بشیر

پاکستان جیسے حساس جغرافیائی، سیاسی اور داخلی مسائل سے دوچار ملک میں فوج محض ایک دفاعی ادارہ نہیں بلکہ ریاست کی بقا، نظم و نسق اور پالیسی سازی کے عمل میں ایک نمایاں قوت رہی ہے۔ پاکستان کے سیاسی و معاشی تناظر میں جہاں ہر ادارہ کسی نہ کسی بحران کا شکار ہے، وہاں فوج کا کردار ہر دور میں غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا ہے۔
پاکستان میں فوج ہمیشہ سے ایسا ہی ایک ادارہ رہی ہے: ایک ایسا ستون جس پر کبھی اعتماد کی چادر تنی رہی اور کبھی سوالات کی بارش برسی۔ مگر آج، جب ملک ایک بار پھر دوراہے پر کھڑا ہے، ایک نیا بیانیہ ابھر رہا ہے جو فرد کے وژن اور ادارے کی ساخت کے بیچ ایک نازک توازن قائم کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ جس سے قیادت کا نیا تناظر سامنے آ رہا ہے۔ اس سیاسی ابتری، معاشی بے یقینی، داخلی بدامنی اور سول-ملٹری تعلقات کے نئے موڑ پر جنرل عاصم منیر کی ذات کو لے کر مختلف حلقوں میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ بعض تجزیہ کار انہیں ایک اصول پسند، سسٹم کے وفادار اور کم گو سپاہی کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ کچھ انہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت برقرار رکھنے والے روایتی جرنیل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
جنرل عاصم منیر پاکستان کی تاریخ کے پہلے حافظِ قرآن آرمی چیف ہیں، جو سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ایم آئی بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی پر بدعنوانی سے نفرت اور ایک نظم و ضبط پسند طبیعت کے اثرات واضح ہیں۔ قومی بحرانوں میں عسکری قیادت کی بصیرت کس طریق سے مسائل سے نپٹتی ہے، یہ جرات رندانہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور دلی طمانیت سے فخر بھی کیا۔پاکستان کی حالیہ تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں کہ ملک بیک وقت سیاسی، معاشی، سیکیورٹی اور سماجی بحرانوں کی لپیٹ میں آیا ہو، مگر جو چیز جنرل عاصم منیر کے عہد کو منفرد بناتی ہے وہ ہے ان بحرانوں کو ایک “مربوط قومی سلامتی” کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش۔ ان کے مختلف بیانات اور اقدامات سے جو اشارے ملتے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے مسائل کو محض سیکیورٹی یا سیاسی عینک سے نہیں دیکھتے بلکہ ایک ہمہ گیر وژن کے حامل ہیں۔ معاشی سلامتی کو قومی مفاد کے ساتھ جوڑتے ہوئے، وہ بارہا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ “معاشی استحکام کے بغیر قومی خود مختاری ممکن نہیں”۔ یہ ان کی گہری بصیرت کا عکاس ہے۔ ماضی میں فوجی قیادت زیادہ تر سیکیورٹی خدشات تک محدود رہتی تھی، لیکن موجودہ آرمی چیف نے یہ باور کرایا ہے کہ قرضوں پر چلنے والی معیشت، بیرونی دباؤ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ان کے فوجی قیادت میں آنے کے بعد قومی معیشت میں فوجی اداروں کی دلچسپی، جیسے SIFC (Special Investment Facilitation Council) کا قیام، اسی سوچ کا عملی اظہار ہے — خواہ اس پر تنقید کیوں نہ ہو۔
جنرل عاصم منیر ریاستی بیانیے اور عوامی جذبات کے درمیان خلیج کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے دور میں سیکیورٹی ادارے عوامی بیانیے کو “شہری مزاحمت” یا “ملکی وفاداری” جیسے اصولوں سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ بیانیہ عوامی امنگوں سے ہم آہنگ ہے یا محض ادارہ جاتی مفادات کے گرد گھومتا ہے، لیکن کم از کم یہ واضح ہے کہ وہ بیانیے کی ضرورت کو محض طاقت سے نہیں، بلکہ فکری قیادت سے بھی سمجھتے ہیں۔جنرل عاصم منیر کا انداز جارحانہ بیانات کے بجائے خاموش عمل پسندی (strategic reticence) پر مبنی دکھائی دیتا ہے۔ وہ کم گو ضرور ہیں، مگر ان کا بیانیہ واضح، ٹھوس اور طویل المدت اثرات رکھنے والا ہے۔ چاہے وہ بھارت کے ساتھ تعلقات ہوں، یا افغانستان کے مسئلے پر موقف — ان کی پالیسیوں میں غیر ضروری اشتعال انگیزی کے بجائے تدبر اور حکمت عملی جھلکتی ہے۔
داخلی انتشار پر فوجی ردعمل کا متوازن پہلو
9 مئی کے بعد کی صورت حال میں، اگرچہ فوجی ادارے نے سخت موقف اپنایا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جنرل عاصم منیر نے “اندرونی استحکام” کو ترجیح دینے کی بات بھی کی۔ ان کا یہ مؤقف کہ ملک اندرونی خلفشار سے نہیں سنبھل سکتا، ایک تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
جنرل عاصم منیر نے “ریاستی بیانیے” کی بات کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیانیہ صرف سیکیورٹی اور دشمن کے خلاف بیانیہ ہوگا؟ یا اس میں عوام، جمہوری اداروں اور سماجی ہم آہنگی کے اصول بھی شامل ہوں گے؟ موجودہ وقت میں پاکستان کا قومی بیانیہ بحران کا شکار ہے، جو نہ صرف دہشت گردی، لسانی اختلافات، اور مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے بلکہ سیاسی تقسیم نے اسے مزید الجھا دیا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ “غیر سیاسی” فوج کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ فوج اپنی قومی سلامتی کے کردار سے دستبردار ہو جائے، اور اپنوں سے تیر کھا کر کمیں گاہوں کی طرف دیکھتی رہے۔ غداروں کو ان کے انجام تک پہنچانا نہایت ضروری ہے۔ اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمیں اندر کے دشمنوں سے زیادہ خطرہ ہے، جو انڈیا کی جارحیت کو شہ دیتے رہے۔
لشکر کی آنکھ مالِ غنیمت پہ ہے لگی
سالار فوج اور کسی امتحاں میں ہے (پروین شاکر)

آج کے پاکستان میں عوام، میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی ضرورت ہے۔ جذباتی نعروں، شخصیات کی اندھی حمایت یا مخالفت، اور سوشل میڈیا کے جھوٹے بیانیوں سے نکل کر ایک سنجیدہ قومی مکالمے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو آزاد، ذمہ دار اور پیشہ ورانہ اصولوں پر کھڑا ہونا ہوگا، تاکہ نہ صرف سچ بولنے کی ہمت ہو بلکہ سچ برداشت کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو۔
اسی طرح سیاست دانوں کو بھی اپنا رویہ بدلنا ہوگا، اور اپنے مسائل کو خود حل کرنے کی سیاسی بلوغت پیدا کرنا ہوگی۔
پاکستان کے موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کی قیادت ایک نہایت اہم، نازک اور فیصلہ کن دور میں جاری ہے۔ جنرل عاصم منیر کی نیت اور بصیرت، دونوں میں سنجیدگی کا عکس ملتا ہے۔ مگر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ادارے

Comments (0)
Add Comment