لاھور شہر کی وہ فضا جو صدیوں سے روحانیت، تہذیب، اور روایتوں کی امین چلی آ رھی ھے، کبھی کبھی کچھ ایسی کالی چھاؤں میں گم ہونے لگتی ھے جن کا تعلق ہماری اجتماعی ے حسی سے ھوتا ھے۔ شہر کے وہ علاقے جو زمانہ دراز سے زائرین، سیاحوں اور اہلِ دل کے لیے امن اور اطمینان کی علامت رھے ہیں، بدقسمتی سے کچھ عرصے سے مختلف قسم کے غیر قانونی، غیر اخلاقی اور معاشرتی طور پر تباہ کن دھندوں کی زد میں آ چکے تھے۔ یہ صورتحال صرف ایک انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ ایک معاشرتی چیلنج بن چکی تھی جس نے شریف شہریوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کیا اور ایک خاموش اذیت میں بدل دیا۔
ایک ایسے وقت میں جب اکثر لوگ صرف شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں، کچھ کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جو بغیر کسی شور شرابے کے عملی قدم اٹھاتے ہیں اور اپنے عمل سے یہ پیغام دیتے ہیں کہ حالات چاہے جتنے بھی بگڑ جائیں، اگر ارادہ پختہ ہو تو سدھار ممکن ھے۔ شہر کے اس حصے یعنی بھاٹی گیٹ کے گردو نواح میں قائم کئی ہوٹل، گیسٹ ہاؤسز اور سرائے ایسی سرگرمیوں کے اڈے بن چکے تھے جنہیں معاشرہ کبھی قبول نہیں کرتا۔ وہاں پر جسم فروشی، منشیات کی فراہمی، غیر اخلاقی محفلیں، اور وہ تمام حرکات جاری تھیں جنہیں بیان کرنا بھی شرمندگی کا باعث ھے۔
مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ھے، بلکہ اصل دکھ کی بات یہ تھی کہ کس خاص مرکز تجلیات کےمقام کے آس پاس یہ سب ہو رھا تھا۔ اس فضا میں بدبو پھیلانے والے لوگ نہ صرف قانون شکن تھے بلکہ ان بنیادی اخلاقی اقدار کے دشمن تھےجن پر ہمارا معاشرہ قائم ھے۔ ہوٹلوں اور سرائے کی آڑ میں کئی ایسے گھناؤنے کاروبار پروان چڑھ چکے تھے جن میں نہ صرف
مرد و زن ملوث تھے بلکہ نوجوانوں کی زندگیوں کو بھی گمراہی کی طرف دھکیلا جا رہا تھا۔ کچھ کمروں میں کیمرے لگے تھے، کچھ میں نشہ آور اشیاء رکھی جاتی تھیں، اور کچھ جگہیں ایسی تھیں جہاں انسانی حرمت کو چند روپوں کے عوض پامال کیا جا رہا تھا۔
یہ سب کچھ عرصے سے جاری تھا مگر ایک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ شاید لوگ خوفزدہ تھے، شاید کچھ مصلحتوں کا شکار تھے، اور شاید یہ بھی سوچتے ھوں گے کہ کچھ بدلنے والا نہیں۔ لیکن اچانک منظر بدلنے لگا۔ وہ علاقہ جہاں جرم نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی تھیں، وہاں قانون کی عملداری نے پہلی مرتبہ سنجیدہ رخ اختیار کیا۔ متعلقہ پولیس افسر نے حالات کی سنگینی کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اُس پر بھرپور ردِعمل بھی دیا۔ انہوں نے صرف دفتری فائلوں میں بات کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ براہِ راست کارروائیوں کی نگرانی کی، مختلف پہلوؤں پر انٹیلیجنس اکٹھی کی، اور ایک ایسے منصوبے کو عملی شکل دی جو اس علاقے میں امن کی بحالی کا پیش خیمہ بن گیا۔
ان کارروائیوں کا آغاز ہوٹلوں پر اچانک چھاپوں سے ھوا۔ ان چھاپوں میں کئی افراد کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا۔ کمرے سے فحش مواد، نشہ آور اشیاء، غیر اخلاقی ویڈیوز، اور مشکوک ریکارڈ برآمد ھوا۔ کچھ مقامات پر تو وہ مکروہ عمل ہو رہا تھا جس سے حضرت لوط کی قوم کے قصے یاد آجاتے ہیں جس کو سن کر انسانیت شرمندہ ہو جائے۔ ان تمام سرگرمیوں میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی، مقدمات درج ہوئے، اور کچھ سرا ئے کو سیل کر دیا گیا۔ یہ کارروائیاں وقتی نہیں تھیں، بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئیں، اور ان کا تسلسل آج بھی قائم
ھے۔
اس تمام عمل میں ڈی آئی جی فیصل کامران کی قیادت کا کردار غیر معمولی رہا۔ پولیس ٹیم کی رہنمائی جس انداز سے کی گئی، وہ قابل ستائش ھے۔ ایسے مواقع پر جب کئی بار طاقتور عناصر رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، یہاں ایسی کسی مداخلت کو خاطر میں نہ لایا گیا۔ ایک موقع پر ایک بااثر ہوٹل مالک نے اثرورسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی، مگر قانون کی بالا دستی قائم رکھی گئی۔ عوام نے بھی اس کارروائی کا خیرمقدم کیا، کیونکہ وہ طویل عرصے سے اس اخلاقی گراوٹ کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے مگر کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی۔
لاہور جیسے شہر میں جہاں ایک طرف ترقی اور جدیدیت کا تاثر دیا جاتا ھے، وہیں اگر ایسے علاقے قانون شکن عناصر کے کنٹرول میں چلے جائیں تو یہ نہ صرف انتظامیہ کی ناکامی ھے بلکہ معاشرتی اقدار کی شکست بھی ھے۔ لیکن یہاں معاملہ مختلف تھا۔ یہاں قانون نے سر اٹھایا، یہاں خاموشی کو طاقت سے بدلا گیا، یہاں خوف کے مقابلے میں یقین کھڑا ھوا۔ اور یہ سب کچھ صرف تب ہی ممکن ہو سکا جب قیادت میں خلوص، دیانت داری، اور پیشہ ورانہ صلاحیت موجود ھو۔
ایس پی سٹی بلال احمد نے اور ان کی ٹیم نےاس مہم کو محض رسمی کارروائی نہیں بننے دیا۔ انہوں نے ٹیم کے ساتھ خود فیلڈ میں جا کر نگرانی کی، اپنی بہترین اور بہادر ٹیموں کو اخلاقی حوصلہ دیا، اور ہر اُس قدم کی حوصلہ افزائی کی جو معاشرے کے حق میں تھا۔ ان کا طریقہ کار نہایت شفاف، متوازن اور قانون کے دائرے میں رہا۔ انہوں نے اس تاثر کو بھی زائل کیا کہ پولیس صرف کمزور کے خلاف طاقت استعمال کرتی ھے۔ یہاں طاقتور بھی قانون کے سامنے بے بس دکھائی دیے۔
یہ معاملہ صرف ایک محلے یا علاقے کا نہیں۔ یہ ایک سوچ کی جنگ ھے، جس میں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ ہم اپنی اگلی نسل کو کس سمت لے کر جا رہے ہیں۔ اگر ان سرگرمیوں کو نہ روکا جاتا، تو بہت سے نوجوان ان گھناؤنے دھندوں میں جھونک دیے جاتے، بہت سی زندگیاں تباہ ھو جاتیں، اور شاید معاشرہ کبھی واپس اپنے قدموں پر نہ کھڑا ہو پاتا۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ آپریشن ایک انتظامی کارروائی نہیں، بلکہ معاشرتی اصلاح کی جانب ایک سنجیدہ قدم تھا۔ عوامی ردِعمل اس قدر مثبت تھا کہ کئی سماجی تنظیموں نے بھی پولیس کی حمایت میں بیانات جاری کیے، مقامی افراد نے شکریہ کے پیغامات دیئے، اور شہر