اسکول جانا شروع ہوۓتو قاعدہ ،تختی ،قلم ،دوات ،سیاہی اور پھر پنسل ،پنسل تراش ،سلیٹ اور پھر اس پر لکھنے کو چاک اور سلیٹی جیسی نئی اور دلچسپ چیزوں سے واسطہ پڑا تو بڑا عجیب لگتا تھا ۔پہلے پہلے تو زمین کی مٹی یا ریت پر لکھ کر ہاتھ سے مٹا دیتے تھے اور روز آنہ تختی کو چکنی مٹی(گاچی ) لگا کر سے صاف کرنا پھر لکھنا اور پھر صاف کرنا سلیٹ پر سفید سلیٹی یا چاک سے لکھنا اور اپنے تھوک یا اپنی قمیض کے کونے سے صاف کر لینا پھر ذرا شعور آہا تو سلیٹ کے ساتھ امی جان نے ہمارے گندےیونیفارم دھونے سے تنگ آکر ایک کپڑے کاٹکڑا دھاگے سے سلیٹ کے سوارخ کے ساتھ باندھ دیا جسے( پوچی) کہا جاتا تھا لیکن اسے بھی گیلا کرنا پڑتا تھا سو کبھی پانی یا پھر تھوک ہی لگا کر گزارہ کر لیتے تھے ۔لکھے ہوۓ کو مٹانے کے لیے یہ جتن اس لیے کئے جاتےتھے کہ ایک ہی تختی اور ایک ہی سلیٹ ہوا کرتی تھی ۔پہلا لکھا ہوا مٹے گا تو دوسرا لکھا جاۓ گا ۔روز “کانے“یعنی (سرکنڈ) کی قلم تراشنا اور سیاہی کی پڑیا سےروز دوات میں تازہ روشنائی تیار کرنا اس لیے ضروری ہوتا تھا کہ کہیں روشنائی پھیکی نہ پڑجاۓ ۔پنسل گھڑ (تراش ) کر اسکی نوک بنانے اور تختی کی صفائی اور بہترین گاچی لگانے کا مقابلہ ہوتا اور سب سے بہترین تختی والے کو شاباش ملتی تھی ۔پانچویں جماعت میں پتہ چلا کے تختی ،سلیٹ ،سلیٹی ،قلم دوات ،سیاہی تو ابتدا تھی ان کی جگہ سیاہی والے پین ،پنسل ،بال پین،ہولڈر جن پر اردو اور انگریزی لکھنے کی “زیڈ ” اور “جی” کی الگ الگ نب ہوتی تھی اور کتابوں کے ساتھ تختی کی جگہ خوبصورت کاپی نے لے لی ۔جو سفید رنگ کی ہوتی تھیں لیکن ایک بڑی کاپی پنک(گلابی ) کلر کی بھی دی گئی جسے استادوں نے ایک دستے والی “رف کاپی ” کہہ کر متعارف کرایا ۔یہ گلابی صفحات کی کاپی ہمیشہ سب سے زیادہ موٹی اور بڑی ہوتی تھی ۔ گو ہر مضمون کی الگ الگ کاپی ہوتی تھی مگر اس کاپی پر تمام مضامین کا بوجھ اور مشترکہ ذمہ داری ہوتی تھی ۔جوں جوں عمر گزرتی گئی اس رف کاپی کی ضرورت اور اہمیت بڑھتی گئی ۔کالج میں تو صرف یہ کاپی ہی لے جانا کافی ہو جاتا تھا ۔کہتے ہیں کہ رف کاپی کے گلابی صفحات پر بکھرتے الفاظ دراصل ہماری کامیابی کی بنیاد ہوتے تھے ۔جس پر ہم اپنی روشن سوچ کی خوبصورت تحریر کی عمارت کھڑی کرتے تھے ۔ہمارے استاد کہتے تھے کہ ہمیشہ رف کاپی کو سنبھال کر رکھنا چاہیے یہ ہماری سوچ کے سفر اور ہماری بےشمار کمزور کوششوں اور سعی کا ریکارڈ ہوتا ہے۔یہ کاپی ہمیں بلا جھجھک اپنے خیالات کو لکھنے کی آزادی دیتی ہے جسے مٹاۓ بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتاتھا ۔ درحقیقت یہ ہماری کوششوں اور سوچ میں بہتری کی وہ تاریخ ہوتی تھی ۔جو جو ہمارے سوچ اور تحریری سفر کی عکاسی کرتی تھی ۔کہتے ہیں کہ ” غلطی کرنا عیب نہیں بلکہ غلطی سے نہ سیکھنا عیب ہے رف کاپی ہمیں سیکھنے ،سدھارنے اور مزید سے مزید تر نکھرنے کا موقع دیتی تھی “۔ بظاہر یہ سب سے بیکار سمجھے جانے والی یہ کاپی سب سے زیادہ اہم اور قیمتی ہوتی ہے کیونکہ یہ ہماری غلطیوں کے سفر کی پہلی ساتھی ہوتی تھی ۔لیکن ناجانے کیوں وہ خوبصورت گلابی رنگت والی کاپی کہیں کھو کر رہ گئی ہے ؟ جبکہ ہمیں احساس اب ہوا ہے کہ رف کاپی ہی دراصل سب سے زیادہ اہم ہوا کرتی تھی جو ایک ایسا آئینہ ہوتی تھی جس پر ہماری اصل سوچ لکھی جاتی تھی کیونکہ وہ کسی کو دکھانے یا چیک کرانے کے لیے نہیں ہوتی تھی ۔استاد کہتے تھےکہ رف کاپی ہی سچ ہوتی ہے۔
یوں زندگی کی طرح علم کا سفر بھی غلطیوں کرنے ،سیکھنے اور سنوارنے سے وابستہ ہے ۔ایک بچے کا یہ سفر کچی زمین اور ریت سے شروع ہو کر رف کاپی کے گلابی صفحات تک پہنچتا ہے ۔زمین کی مٹی ،ریت یا پھر بلیک بوڑد پر لکھاتو آسانی سے مٹ جاتا ہے۔ لیکن اس کاپی پر لکھا تو ریکارڈ بن جاتا ہے ۔جی ہاں رف کاپی ہماری وہ پہلی ساتھی ہوتی ہے جو جو ہمیں وہ آزادی دیتی ہے جہاں ہم بغیر کسی خوف کے اپنے خیالات کو اس کے کسی بھی گلابی صفحہ پر اتار سکتے ہیں لفظوں کو تراش خراش کر نوک پلک کر سکتے ہیں ،جملوں کو توڑ پھوڑ سکتے ہیں اور اپنے خیالات کی گرہیں کھول سکتے ہیں ۔رف کاپی وہ خاموش استاد ہے جو ہمیں بار بار لکھنے ،مٹانے اور بہتر کرنے کا ناصرف حوصلہ دیتا ہے بلکہ بتاتا ہے کہ اس کاپی پر غلطی کرنا جرم نہیں ہے بلکہ اچھائی کی کوشش ہوتی ہے ۔ذہن میں موجود کسی سوال کا خاکہ جب ہم رف کاپی پر ترتیب دیتےہیں تو پے در پے غلطیوں کی تبدیلیوں کے بعد ہی ہماری تحریر نکھر کر سامنے آتی ہے ۔رف کاپی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ بہترین کارکردگی کی بنیاد مشق ،محنت اور صبر میں پوشیدہ ہے ۔یہ ہمیں بے خوف قوت اظہار عطا کرتی ہے ۔اسی لیے ہماری تعلیمی اور ذاتی ترقی میں اس کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے ۔ہمارے استاد شاہ محمد صاحب کسی بھی طالب علم کے بارے میں جاننے یا اس کے بارۓ میں کوئی راۓ قائم کرنے سے قبل اسکی رف کاپی ضرور دیکھتے تھے ۔وہ کہتے تھے کہ کسی کا بھی ذہن پڑھنے کے لیے اس کاپی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔یہ رف کاپی ہی دراصل کسی طالب علم کی سوچ اور کوشش یا جدوجہد کا ریکارڈ ہوتی ہے ۔اس پر لکھا ہر لفظ ہماری سوچ کا عکاس اور آئندہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے مدد گار ہوتا ہے ۔وہ کہا کرتے تھے کہ گلابی رنگ نزاکت خوبصورتی اور محبت کی علامت ہوتا ہے ۔اس لیے اس میں قدرتی کشش بہت ہوتی ہے۔ہر رنگ ناصرف ہمارےمزاج پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ ہماری شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے ۔اسی لیے رف کاپی کے اوراق گلابی رکھے گئے ہیں ۔یہی وجہ تھی کہ ہم بچے اپنی رف کاپی کسی کو دکھاتے ہوۓ گھبراتے تھے کیونکہ بہت سے پول کھلنے کا اندیشہ بھی ہوتا تھا ۔
زندگی کے ستر سالہ تجربے نے یہ بتایا ہے کہ رف کاپی کے گلابی اوراق دراصل زندگی کا استعارہ ہوتے ہیں ۔کہ ہم پہلے کوشش کرتے ہیں ،پھر غلطی کرتے ہیں اور ٹھوکر کھاتے ہیں ،جس سے سیکھتے ہیں ۔اپنی سوچ اور رخ بار بار بدل کر پھر سے متعین کرتے ہیں ۔اپنی راہوں کو ہموار کرتے ہیں ۔اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں اور یہی رویہ ہمیں آگے بڑھنے ،سیکھنے اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے قابل بناتا ہے ۔جب ماضی کی جانب پلٹ کر اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو پوری زندگی کسی رف کاپی کی مانند دکھائی دیتی ہے جس کا ہر ہر گلابی صفحہ غلطیوں ،کوہتایوں،پچھتاوےاور شرمندگی کے احساس سے بھرا پڑا ہے ۔زندگی ایک رف کاپی کی طرح ہمیں سکھاتی ہے کہ عروج اور کمال یکایک نہیں ملتا بلکہ مسلسل جدوجہد ،محنت ،اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور صبر کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔رف کاپی دراصل ہمارے ناکام تجربات کا ریکارڈ ہوتی ہے اور انسان تجربات سے ہی سیکھتا ہے ۔رف کاپی پر لکھی ہوئی ہر تحریر ہمیں بہتر انسان اور ایک کامیاب طالب علم بنانے میں مدد گا رثابت ہوتی ہے۔ اس لیے رف کاپی کی اہمیت کو کبھی معمولی نہ لیں ۔یہ ہماری کامیابی کی پہلے سیڑھی ہوتی ہے ۔کہتے ہیں کہ ہر عظیم تحریر کا آغاز ایک رف کاپی کے صفحہ سے ہوتاہے جہاں ذہن میں بکھرے ہوۓ الفاظ یکجا ہونے کی کوشش کرتےہیں اور ہمارے خواب اور تصورات خیالات بن کر پروان چڑھتے ہیں ۔رف کاپی وہ پہلی سانس ہے جو تحریر کو زندگی ، بقا اور جلا بخشتی ہے ۔زمین کی مٹی یا ریت پر لکھنے کا یہ سفر گلابی اوراق میں ڈھل تو چکا ہے مگر دکھ یہ ہے کہ مٹی یا ریت کی طرح اس پر ہاتھ پھیر کر اسے مٹایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی تختی اور سلیٹ کی طرح گاچی یا پوچے سے اسے صاف کیا جاسکتا ہے ۔یہ ہمارا وہ ماضی ہوتا ہے جسے بھلا کر اس کے دئیے ہوۓ سبق یاد رکھنا ہی کمال ہے ۔
ٹیکنالوجی اور زمانے بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں ۔جدید دور میں یہ گلابی اوراق اور پرانی رف کاپی ہمارۓ موبائل فون یا کمپیوٹر کا حصہ بن گئے ہیں۔ہماری ہر ہر حرکت ،سوچ ،تحریر ،سرچ ، تصویر ،خیال اور حرکت لاکھ ڈیلیٹ کر لیں اس کے ڈیٹا بیس میں موجود رہتی ہے ۔یہ موبائل فون ہمیں دیکھ بھی رہا ہے سن بھی رہا ہے اور پڑھ بھی رہا ہے اور سب کچھ ریکارڈ کرکے محفوظ بھی کرتا جاتا ہے ۔جی ہاں یہ وہی گلابی اوراق ہیں جو اس جدید ٹیکنالوجی نے ان گنت خوبصورت رنگوں میں رنگ دیے ہیں ۔محتاط رہیں آپکے خیالوں تک رسائی اب ناممکن نہیں رہی آپکی سوچ اب محفوظ نہیں ہے ۔آپ بےبس ہو چکے ہیں ۔آپ کی زندگی کے گلابی اوراق آپ کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں ۔کمپیوٹر اور موبائل کا ایک ٹچ سب کچھ بظاہر ڈیلیٹ تو کر دیتا ہے لیکن پس پردہ وہ ہمیشہ محفوظ رہتا ہے ۔یہی ٹیکنالوجی کا کمال ہے جو ہماری زندگی میں گلابی اوراق کی طرح شامل ہو چکی ہے ۔ہمارے ایک ماہر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کی ہسٹری بھی صاف ہو سکتی ہے لیکن جو فرشتے ہمارے کندھوں پر بیٹھے ہیں وہ ہر لمحہ اپنی انمٹ کتاب لکھ رہے ہیں ۔وہ تو کتاب تو ہمارے ساتھ ہی جاۓ گی اور قیامت تک ساتھ ہی رہے گی ۔