شیر یں سید

سید جمال زیدی

ہوا کچھ یوں کہ شیریں سید نے حسب معمول ایک دعوت نامہ دکھایا کہ خالد مصطفیٰ معروف شاعر ، ادیب، محقق نعت بلارہے ہیں جناح پارک میں کہ مل بیٹھیں دوست احباب اور برپا کریں اک محفل بدھ کی سہ پہر ، یہ وہی خالد صاحب ہیں جو ہمیشہ اکیڈمی آف لیٹرز میں تقریبات میں محبت سے ملتے ہیں اور آج میزبان بنے ہمارے کہ اعزاز میں مجلس سجای شہزاد نیر کے جو عہد حاضر میں نظم کے حوالے اور مایکروفکشن کی نسبت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں کہ انکی “کہانی چل رہی ہے” سو طے ہوا کہ کچھ بھی ہو شریک نشست خاص “گفتگو وشعر” ہوا جاے اور ہم ہوگئے، جناح پارک میں داخل ہوتے ہی لگا کہ گرمی غائب ہوچلی ہے ، بقول ماہر القادری (جب شام ڈھلے ، پروائی چلے، جیا مچلے، بیتے ہوئے دن یاد آئیں…. بیتے ہوئے دن یاد آئیں، ہماری بھی تو اس پارک سے بھولی بسری یادیں وابستہ ہیں جن میں اکثریت سے مسرور کن، بس ایک تکلیف دہ ہے کہ اسی مقام پہ جیل ہوا کرتی تھی، اب تو تا حد نظر ہریالی ہے بلند قامت درخت ، چاروں جانب پھولوں کی مہک آپ کا استقبال کرتی ہے اور دوستوں کے دوست خالد مصطفی دونوں بازو پھیلانے ہمہ وقت چشم براہ ہیں، کیونکہ پارک پر حکم جو آپ ہی کا چلتا ہے ، درویشی آپ کی مٹی میں گندھی ہے دیکھتے ہی خوشی کا اظہار تپاک سے گلے مل کر کیا اور انکی خوشی دیدنی تھی، ایڈمنسٹریٹر آفس میں پہلے سے ہی موجود علم و ادب کی معتبر شخصیات ڈاکٹر مہناز انجم اور ڈاکٹر فاخرہ نورین نے بھی ہمارے پہنچنے پر خوشی کا اظہار کیا آپ دونوں ہی شاعر، ادیب ،استاد اردو اور کتابوں کی مصنفین بھی ہیں اور یہ ادبی سفر جاری ہے اتنے میں نوجوان شعرا عمران عامی اور ناصر علی ناصر بھی آپہنچے اور یوں حرارت ماحول میں خوش کن اضافہ ہوا کہ کم ہی موقع مل پاتا ہے یاروں کو “محفل یاراں” سجانے کا ، اب شدت سے انتظار تھا کہ نظم کی دنیا کے میر قافلہ ڈاکٹر وحید تشریف لائیں اور باضابطہ اجلاس ہو، طے یہی پایا تھا کہ پہلا حصہ گفتگو کا کہ جس کیلیے موضوع کی قید نہیں اور دوسرے حصہ میں شرکائ اپنا کلام گوش گزار کریں گے، کیونکہ غیر رسمی گفتگو جو چل پڑی تھی کہ شاعری پر مصنوعی ذہانت کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں اور کیا شاعر نے اس سے استفادہ کرتے ہوے بھی شعر کہنا شروع کردیے ہیں….؟، ڈاکٹر وحید صاحب کے آتے ہی ان سے صدارت کی درخواست کرتے ہوے شہزاد نیر نے اس “بات چیت” کو ہی ایجنڈا کا حصہ بناتے ہوئے سلسلہ کلام جاری رکھا کہ ارٹیفشل انٹیلیجنس شاعری میں کیا کمالات دکھا رہی ہے، ڈاکٹر فاخرہ نورین کا کہنا تھا کہ آپ Gpt Chat سے شاعری میں کسی بھی شاعر کے اسلوب میں نظم بآسانی لکھوا سکتے ہیں جبکہ غزل کا معاملہ کسی حد تک مختلف ہے، جیسا کہ فہمیدہ ریاض، کشور ناہید ،نصیر احمد ناصر یا سدرہ سحر عمران کے اسالیب میں نظم لکھوای جاسکتی ہے ، شہزاد نیر کا ماننا تھا کہ غزل کے پڑاو میں ابھی تک 50 فیصد تک سہولت ملی ہے، البتہ AI میں paid version اور unpaid version دونوں کے بالترتیب مختلف نتائج سامبے آے ہیں ، ڈاکٹر ادریس آزاد نے عمدہ غزل کا تجربہ بھی کیا ہے، میرا خیال تھا کہ جب سے گوگل کا استعمال شروع ہوا (جو کہ اب پرانی بات لگتی ہے) ہم لوگوں نے اپنے مطلوبات کو جھٹ سے گوگل سے پوچھنا شروع کردیا تھا، اور ہمارے اذہان نے یہ قبول بھی کرنا شروع کردیا کہ گوگل کے جوابات سو فیصد درست ہوتے ہیں، لیکن اگر ہمارے جن سوالات کے جوابات گوگل سے برآمد نہیں ہوپاتے تو بھر اپنی ذاتی یادداشت کو ٹٹولنا پڑتا ہے ، بصورت دیگر، مروجہ وسائل بروئے کار لانے بھی پڑتے ہیں، اور AI اسی سلسلے کا جدید ترین سیاپا ہے، شہزاد نیر نے بتایا کہ لفظ “سیاپا” دراصل اندرون پنجاب کے قصبہ جات میں روایتی”بین” کرنے کے عمل کو کہا جاتا ہے جو کہ صدیوں سے وہاں رواج پا گیا ہے، جس طرح اس نے نثری نظم پر اثرات مرتب کیے ہیں تو بالکل اسی طرح نثر کو بھی اپنے حصار میں لیگی، بلوچستان کے طاہر راجپوت اور علی زیوف کے ہاں اشارے ملتے ہیں یہ کہنا تھا ڈاکٹر مہناز انجم کا کہ علی زیوف کے ہاں تراکیب نظم کا تسلسل قایم ہے ، آج کی اس نشست کے صاحب صدر ڈاکٹر وحید احمد دراصل میڈیکل ڈاکٹر بھی ہیں اسلیے انکا خیال ہے کہ شاعر کی تخلیق کا گہرا تعلق کروموسومز سے ہوتا ہے جو AI میں کسی صورت نہیں اور آج Gpt chat کے چھا جانے سے شاعری کے مستقبل کے معدوم ہوجاسکنے کی جو بات چل پڑی ہے کہ اندیشہ ہے کہ شاید سخنور فارغ ہوجایں گے ، ایسا ہرگز نہیں ہے یہ اس وقت جب کہ میں میدیکل سٹوڈنٹ تھا تو شعرائ کی مجلسوں میں آنے والے وقت کے تقاضوں اور “سائینسی ترقی کے ادوار کی جدیدیت میں شاعری کا مستقبل ” موضوع زیر بحث رہا ہے انہوں نے زمانہ طالبعلمی میں ہی ایک کتاب بعنوان “شفافیاں” لکھ کر خدشات کا جواب دے دیا تھا کہ کمپیوٹر اور انسانی دماغ کی دوڑ میں انسان سبقت لے جانے گا اور کمپیوٹر کا مائیکرو چپ سسٹم جل کر بھسم ہوسکتا ہے ، اسلیے metaphysical domain کی رو سے AI کا پیدا کردہ شاعر ہمارے نیچرل اوسط درجے کے شاعر سے بھی کم تر ہوسکے کا امکان ہے، کیونکہ ادب کا تعلق انسانی جذبات ، احساسات، آہنگ اور شاعری میں خصوصی طور بحر سے ہے، شہزاد نیر نے آخر میں بحث کو سمیٹا اور دوسرے حصہ یعنی محفل شعر کی جانب توجہ دلائی شرکائ نے بالترتیب اپنا کلام پیش کیا انکے نام اور نمونہ کلام یہ ہے، سیدہ مصور صلاح الدین.(جو غار ثور میں لفظوں کے جال بنتی ہیں….. مرے سخن میں انہی مکڑیوں کے جالے ہیں) شیریں سید (دعوت شوق کے مہمان کہاں جائیں گے…. دل کہاں جائے گا، ارمان کہاں جائیں گے…. آپ تو جائیے، جانے کے لیے آئے تھے…. آپ کے وعدہ و پیمان کہاں جائیں گے) ناصر علی ناصر (میں سمندر ہوں

Comments (0)
Add Comment