سفارتی جنگ ۔

از محمّد مہدی

10 مئی کے سیز فائر کے بعد یہ طے شدہ امر تھا کہ اب عسکری محاذ خاموش رہے گا جب کہ طبل جنگ سفارت کاری کے میدان میں بج جاۓ گا اور پاکستان کو اپنی عسکری فتح کے نتائج سے سفارت کاری کی دنیا کو متاثر کرنا ہوگا ۔ پاکستان نے بر محل اپنی سفارتی مہم کا آغاز کردیا اور یقینی طور پر اس مہم میں اہداف اور ان کے حصول کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہوگا ۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے کہ جب سرتاج عزیز مرحوم وزیر اعظم کے مشیر خارجہ تھے ۔ انہوں نے اپنے عرصہ مشاورت میں وزارت خارجہ کی کارکردگی کو جانچنے کیلئے ایک طریقہ کار اختیار کیا تھا ۔ ان سے ملاقات بھی ہوجاتی تھی اور انہوں نے میرے سامنے بھی اپنے اس طریقہ کار کا اظہار کیا تھا ۔ اگر موجودہ صورتحال میں پاکستان کی سفارتی مہم کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہو تو ان کے وضع کردہ طریقہ کار سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ طریقہ کار یہ تھا کہ جب وہ اس ذمہ داری پر فائز ہوئے تھے تو اس بات کا جائزہ لیا گیا تھا کہ اس وقت پاکستان سے کسی بھی ملک کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے اور اس کی سطح منفی یا مثبت کیسی ہے ؟ ان تعلقات میں کس نوعیت کی پیش رفت ممکن ہے ؟ اس کے نمبر مقرر کئے گئے تھے ۔ پھر بعد میں وزارت خارجہ کی حکمت عملی کے ذریعے ان تعلقات کی حیثیت کیا ہو گئی ؟ اور یہ حیثیت منفی ہوئی یا مثبت ؟ اب اس کے نمبر کتنے ہیں ؟ اس فارمولا کو انڈیا کی جانب سے کئے گئے حملے کے بعد پاکستان کی طرف سے شروع کی گئی سفارتی مہم پر بھی اطلاق کیا جا سکتا ہے اور اپنی كامیابیوں یا کہی اگر کمزوری محسوس ہوئی ہو تو اس کا ادراک ممکن ہوگا بلکہ بہت ضروری ہے ۔ مثال کے طور پر پرفارما اس طرح سے با آسانی ترتیب دیا جا سکتا ہے کہ پہلگام واقعہ سے قبل کشمیر اور اس سے منسلك امور کے حوالے سے عالمی برادری یا یوں کہہ لیجئے کہ دنیا کے اہم ممالک کی پالیسی کیا تھی ؟

جب پہلگام کا انتہائی افسوس ناک واقعہ ہو گیا اور انڈیا نے لمحوں کے بعد ہی پاکستان پر الزام عائد کرنا شروع کر دیا اور پاکستان نے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیش کش کردی تو اس تمام وقت میں کتنے ممالک نے پاکستان کی حمایت کی اور کتنے ممالک انڈیا کے همنوا تھے جب کہ خاموش کون کون تھا؟

پھر انڈیا طاقت کے خود ساختہ زعم میں اندھا ہو کر جب پاکستان پر حملہ کرنے کی سنگین غلطی کر بیٹھا اور اس کو جنگ کی پہلی رات ہی منہ کی کھانی پڑی جب کہ پاکستان کے آپریشن بنيان المرصوص کے بعد سیز فائر ہو گیا تو اس سارے ” زمانے ” میں جو ایک زمانہ بدل گیا دنیا بھر کا رويه کیسا رہا؟ دنیا اس خطرناک تصادم کو کس نظر سے دیکھ رہی تھی اور کس کے بیانیہ کو تسلیم کر رہی تھی؟ دنیا بھر کے دفاتر خارجہ نے اس صورت حال پر کیا تبصرے کئے ؟

اب یہ وقت تو گزر گیا اور جنگ سفارتی میدان میں شروع ہو گئی ۔ انڈیا نے بھی اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سفارتی مہم کا آغاز کردیا اور پاکستان بھی دنیا کو سچ سنانے اور حقیقت حال سے مطلع کرنے کیلئے متحرک ہو گیا ۔ اصل سوال ہی اب قایم ہوا ہے کہ پاکستان کی سفارتی مہم کے نتائج کے طور پر کتنے ممالک میں نکتہ نظر کی تبدیلی ہم لا سکیں ہیں ؟

اپنی حمایت میں کس قدر اضافہ ممکن بنا دیا گیا ہے ؟ جن افراد سے ملاقاتیں ہماری سفارتی مہم میں کی گئی ہے ان میں سے کتنے افراد نے ذاتی حیثیت میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے مؤقف کی حمایت میں کوئی بیان دیا ہے؟ ان تمام سوالات کے جوابات کو مختلف ممالک اور ان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ، ضروریات کا پس منظر سمجھتے ہوئے ہمیں ضرور تلاش کرنا چاہئے ۔ اگر اس نوعیت کی مشق کی جاۓ تو اس سے خارجہ سطح پر پاکستان کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔ انڈیا نے جو حالات مودی کی قیادت میں قایم کر دیے ہیں اس میں تو اب سفارتی محاذ پر روز ایک نئی جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا تو ہماری تیاری بھی روز کے روز ہوتی رهنی چاہئے ۔ پاکستان کو اور دنیا بھر میں پاکستان کا کیس لڑنے والوں کو اس بات میں بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کہ نیوکلیئر پاور ہونے کا ذکر کتنی بار کرنا چاہئے اور بار بار کرنا بھی چاہئے یا نہیں ؟ اس لئے کہ نیوکلیئر صورت حال یا تصادم کے خدشے کا بار بار ذکر کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان نیوکلیئر پاور کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کر رہا اور دوئم یہ کہ پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت صرف نیوکلیئر پاور ہے ۔ ابھی پاکستان نے عسکری محاذ پر جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور انڈیا کو ناکوں چنے چبوائے ہیں وہ تو روایتی ” جنگ ” تھی یعنی کہ پاکستان کو نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ ہم ویسے ہی دشمن پر بھاری ہے ۔ اور جب اس کو ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو دنیا اس حوالے سے مودی کے رويه کو دیکھتی ہے کہ وہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے استعمال کرنے کی کتنی بار بات کرتے ہیں ۔ ہمیں اس حوالے سے بہت محتاط رويه اختیار کرنا چاہے تا کہ دنیا پاکستان کو بدستور ذمہ دار نیوکلیئر ریاست تصور کرتی رہے ۔

Comments (0)
Add Comment