کالم۔ ہم تو ٹھہرے بھلن ہار

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

عید الاضحٰی کی آمد کے ویسے تو بے شمار فوائد ہونگے اگر کبھی وقت ملا تو آرام سے بیٹھ کر اس سلسلے میں ایک فہرست تیار کروں گا اور پھر قارئین کے ذوق شوق کے لئے پیش کردوں گا فی الحال ایک ہی فائدے کے ثمرات واثرات میرے سامنے کھل کھلا کے منظر عام پر آئے ہیں۔ اس عید مذکور کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم سب چند دنوں کے لئے ایک دوسرے کے پیچھے پڑنے کی بجائے بکروں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور مزے کی بات ہے کہ وہ بھی ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جب ان کا گوشت کھانے کا وقت آتا ہے تو ہمیں اس وقت ہاتھ دھونا بھول جاتے ہیں۔ خیر کوئی بات نہیں ہے انسان بھلن ہار ہے۔ یہ پتہ نہیں کیا کیا بھول چکا ہے۔ مجھ جیسے پورے سورے مسلمان تو یہ بھی بھول چکے ہیں کہ ہم نے آج تک کیا کیا کھایا پیا ہے اور کس کس کا کھایا پیا ہے۔ کاش یہ سارا کچھ ہمیں یاد ہوتا تو ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا کہ کسی کے گھر کا نمک کھا کر انسان کو کتنا محتاط رہنا پڑتا ہے۔ احتیاط کی ضرورت ہے ضرورت تو اس بات کی بھی ہے کہ بکرے کو خرید کر قربانی کرنی چاہیئے تحفے تحائف میں ملنے والے بکرے بڑے ہی حساس ہوتے ہیں کیونکہ تحفے میں عام چیزیں تھوڑی دی جاتی ہیں۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں لیکن بڑوں بڑوں میں فرق ہوتا ہے۔ بڑا پن آپ کو قالو بلی کی پاسداری کی وجہ سے اپنا محبوب بیٹا قربان کردینے پر مجبور کردیتا ہے اور پوری فطرت اس بات کا آنکھیں کھول کر مشاہدہ کرتی ہے بلکہ یہ سارا کچھ دیکھ کر جہان رنگ وبو کی ہر ہر چیز کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور امتحان کے سارے تقاضے پورے کردیئے جاتے ہیں اور ذبح عظیم کی بدولت بے مثل اور بے نظیر قربانی کا عرش اور فرش پر اعلان کردیا جاتا ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی اس سارے واقعے کی یاد منانا ہر ایک پر لازم کردیا جاتا ہے۔ بکرے دنبے ذبح کرنا ایک ہے۔ صفا اور مروا کو شعار اللہ قرار دے کر تمام تسلیم کرنے والوں کو ان دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ شیطان لعین کو خلیل اللہ کی تقلید میں پتھر مارنے کو بھی لازم قرار دیا جاتا ہے اور جہاں ابراہیم علیہ السلام کی جبین نیاز اپنے خالق ومالک کے ہاں جھکتی ہے اس جگہ کو مقام ابراہیم کہہ کر فضیلت دی جاتی ہے اور ان یادوں کو چھوٹے لیول پر نہیں منایا جاتا ہے بلکہ پوری دنیا کے صاحب حیثیت لوگوں پر ایسا کرنا فرض قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا امتحان ( اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر۔۔معنی ذبح عظیم آمد پسر) باپ بیٹا اور آئندہ آنے والے لاجواب لوگ۔ میراث کی حفاظت کرنا ہی عظمت کی دلیل ہے اور یہی مذکورہ شعر میں پدر اور پسر کی تفہیم ہے اور ذبح عظیم کی تفسیر ہے
قربانی دینا بڑے ہی دل گردے کا کام ہے۔ ہم تو جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کریں وہ کم ہے کہ ہمارے ہاں تو دل گردے کا رول ختم ہوگیا ہے یہاں تو قربانی دینا بکرے کا کام ہے البتہ آج کل مہنگائی کی وجہ سے بکرے بھی مہنگے ہو گئے ہیں اور اچھے اور سستے بکرے خریدنے کے لئے راجن پور جانا پڑتا ہے۔ راجن پور کی وجہ شہرت کئی لحاظ سے ہے لیکن باقی چیزیں فی الحال مخفی ہیں یہاں کے بکروں نے بڑی شہرت حاصل کی ہے اور ہر شخص کا دو وجوہات کی بنا پر یہ بکرا قربان کرنے کو جی چاہتا ہے ایک یہ کہ ایسے بکرے بڑے ہی خوبصورت ہیں اور دوسرا یہ کہ سستے ہیں۔ کم خرچ بالا نشیں حالانکہ سیانے کہتے ہیں کہ اچھی چیز کا مول کیا پوچھنا۔ کہاوت اور حقیقت میں بڑا فرق ہوتا ہے جیب کا بھی ایک حجم ہوتا ہے اور کوئی مانے نہ مانے ہم سب جانتے ہیں کہ خریداری جیب دیکھ کر کی جاتی ہے۔ جہاں تک مذکورہ بکروں کا تعلق ہے ان بکروں نے تو ہمیں بھی آجکل اہم کردیا ہے۔ واقفان حال ہماری راجن پور کی تعیناتی کی بدولت بکرے خریدنے کی فرمائش اور وہ بھی ارزاں نرخوں پر۔ منڈیوں کے رجحانات پر نظر رکھنا ویسے بھی ایک ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لہذا فون کال کے جواب میں فوری ڈسپوزل ہو جاتی ہے ویسے بھی ایک افسر کے لئے فوری ڈسپوزل کرنا بہت ہی ضروری ہوتا ہے اور اب تو موٹر ویز نے بڑے بڑے مسائل ختم کردیئے ہیں۔ کاروباری لوگ اپنی بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھتے ہیں گانے سنتے راجن پور پہنچ جاتے ہیں اور تھوک کے حساب سے یہاں سے بکرے خریدتے ہیں اور اس سیزن میں خوب مال کماتے ہیں۔ اس سارے منظر میں راجن پوری بکروں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ قیمت کا بتانا اور پھر راجن پوری بکرے کے خواہش مند کو سانپ سونگھ جانا۔ خیر سانپ بھی مر گیا اور لٹھ بھی بچ گئی۔ بات خشوع و خضوع کی ہے ہمارے ایک دوست ہمارے ہم نام ہیں یعنی وہ بھی سر تا پا شفقت ہیں۔ ایک دن انہوں نے لاہور بیٹھ کر راجن پور سے بکرے خریدنے کا اظہار فرمایا اور پھر ہم نے بھی ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمادیا جس میں اس ہونے والے واقعے کے سارے نقصانات کا تفصیلی جائزہ تھا اور پھر زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ ہاں چند یوم بعد ان کا فون آیا پہلے تو وہ نئے بکرے خریدنے پر کیف وسرور کی کیفیت میں تھے اور بکرے کی خوبصورتی کے خدوخال کو مکمل طورپر مجھ تک پہنچانے کی کوشش کررہے تھے اور اچانک ان پر رقت طاری ہوگئی ان کی آواز بھرا گئی اور ان کی آنکھوں نے اس بات پر چھم چھم برسنا شروع کردیا کہ اللہ تعالی نے ان کو کتنے خوبصورت بکرے خریدنے کی استطاعت بخشی ہے اس ساری صورتحال میں مجھے کوئی سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ وہ مجھ

Comments (0)
Add Comment