ایک وقت تھا جب سوشل میڈیا نہ تھا اور چیزوں کو فقط تجارت کے نقطہ نظر سے ہی نہیں دیکھا جاتا تھا۔ نمود و نمائش نہ ہونے کی وجہ سے اخلاص عام تھا۔
بقر عید کو ہی لے لیجیے، ہمارے وقتوں میں زیادہ تر لوگ عید کیلیے جانور گھر میں ہی پالا کرتے تھے یا کسی کا جانور نظر میں رکھ کر عید سے کچھ ہفتے پہلے اس سے سودا پکا کر لیا کرتے تھے۔
قربانی کے جانور کا بچپن سے لیکر قربان ہونے تک شہزادوں جیسا خیال رکھا جاتا تھا۔ اس کا کھانا پینا، رہائش اور اسکے ساتھ برتاؤ دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ مالک ہو اور باقی سب اس کے خادم۔
سال بھر اتنا خیال رکھے جانے کے بعد جب اس کی قربانی کا وقت آتا تو بچوں بڑوں کا اپنی قیمتی اور پیاری چیز قربان کرنے کا جزبہ بقر عید کی اصل روح کو بیدار کرتا۔ ہر بندہ اک خالص نقطہ نظر سے یہ مذہبی فریضہ انجام دیتا اور ہفتوں تک اس قربان ہونے والے جانور کی باقیات کو دیکھ دیکھ کر اسے یاد کرتے۔
عجیب دور تھا جب تعلیم اتنی عام نہ تھی لیکن لوگ مذہب کی تعلیمات کو سمجھتے اور ان پر عمل پیرا ہوتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ گوشت کے بجائے ہمارے تقوٰی اور خلوص نیت کو دیکھتا ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ قربانی کے جانور کی بےحرمتی ٹھیک نہیں۔ یوں ہر سال اک نیا جانور پال کر اگلے سال کیلیے مذہب کی روح کے عین مطابق اپنی قیمی شے کو قربان کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ جب قربانی ہو جاتی تو اس کی ڈھیریاں بنا کر کسی نچے کے ہاتھوں قرعہ اندازی کے انداز میں حقدار لوگوں کی ڈھیری نکالی جاتی اور زیادہ تر وہیں بانٹ دی جاتی تھی۔ ہر بندہ اپنی قربانی کے پاس ہوتا اور سارے عمل میں اپنی خدمات انجام دیتا۔
موجودہ دور میں تو زمانے کے انداز بدل چکے ہیں۔ نمود و نمائش اور مقابلہ بازی عام ہے۔ آخری دنوں میں خریدا گیا جانور اک خاص اپنے پن کی کیفیت سے محروم رہتا ہے۔ اب تو باقاعدہ جانوروں کی کیٹ واک ہوتی ہے۔ جانوروں کی مزاحیہ وڈیوز اپلوڈ ہوتی ہیں۔ زیادہ تر قصائی سے قربانی کروائی جاتی ہے اور خود وڈیوز یا ٹک ٹاک کے زریعے خود نمائی کی جاتی ہے۔ کہیں کہیں ماڑا گوشت غریب کیلیے اور اچھا گوشت اہنے باربی کیوز کیلیے سنبھالا جاتا ہے۔ بچوں کے زریعے قرعہ اندازی کے زریعے منصفانہ تقسیم کا انداز بھی متروک ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سب اتنا نارمل ہو رہا ہے کہ ہماری پیڑھی کی باتیں نئی نسل کو عجیب لگتی ہیں۔ پھر بھی جب تک ہم لوگ باقی ہیں ان پرانی ساد مرادی اصلی عیدوں کو یاد کر کے اپنا دل بہلاتے رہیں گے۔ بقول شاعر:
تمہیںجو یاد رکھا ہے یہی اپنی عبادت ہے
عبادت جس طرح کی ہو عبادت کب بدلتی ہے