صدا بصحرا
رفیع صحراٸی
اپنے کام سے کام رکھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر دوستوں نے عجیب چلن اختیار کر لیا ہے۔ جسے دیکھو ماہرِ قانون، آئینی ماہر اور خود کو زیرک سیاست دان سمجھ کر باقی سب کو بے وقوف اور جاہل ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ کبھی سیاسی سرگرمیاں صرف الیکشن کے دنوں میں نظر آتی تھیں، اب یہ 24 گھنٹے کا موضوع ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاست میں ہیجان اور تیزی آتی جا رہی ہے۔2014 سے پہلےتک سیاست میں ایک ٹھہراؤ تھا۔ سیاسی مخالفین ایک دوسرے کا احترام کیا کرتے تھے۔ مخالفت بھی تہذیب اور شائستگی کے داٸرے میں رہ کر کرتے تھے۔ سیاست ایک صاف ستھرا کھیل ہوا کرتا تھا۔ اگر سیاستدانوں کا آمنا سامنا ہو جاتا تو بڑے تپاک سے مصافحہ و معانقہ کرتے اور ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرتے تھے۔ تب ہر شخص سیاسی ورکر نہیں ہوتا تھا۔ ہر گاٶں، قصبے اور شہر میں صرف چند سیاسی ورکرز ہوا کرتے تھے جو اپنی اپنی پارٹی کی نماٸندگی کرتے تھے۔ تمام پارٹیوں کے سیاسی ورکرز اکٹھے بیٹھ کر اپنے علاقے قصبے یا شہر کی ترقی و بہتری کے منصوبے بنایا کرتے تھے اور برسرِ اقتدار پارٹی کے ورکرز ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے پارٹی رہنماؤں سے رابطہ کیا کرتے۔ تب سیاسی سرگرمیاں صرف الیکشن کے دنوں میں ہوا کرتی تھیں۔ الیکشن ختم ہو جاتے تو سیاسی سرگرمیاں بھی تھم جاتیں۔ لوگ باہم شیر و شکر ہو کر معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔ تب سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں نہیں بدلتے تھے۔ سیاسی ورکرز ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہتے تھے۔ اپنے لیڈر کی محبت میں دوسری سیاسی جماعت کے سربراہ کو گالیاں نہیں دیتے تھے۔ سب لوگ امن اور بھائی چارے کے ساتھ سکون سے رہ رہے تھے۔
پھر 2014 آ گیا۔ ہمارے ملک کے امن و سکون کو کسی بدخواہ کی نظر لگ گئی۔ اوپر سے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی یلغار نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ سیاست میں طوفانِ بدتمیزی اور شور شرابے کا چلن عام ہو گیا۔ سیاسی لیڈروں نے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا شروع کر دیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے ریٹنگ کے چکر میں اس آگ کو مزید بھڑکایا اور عوام بغیر سوچے سمجھے آگ کے اس میدان میں کود پڑے۔ سیاسی لیڈروں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور اقتدار کی جنگ میں عوام کو ایندھن کی طرح جھونکنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام تقسیم در تقسیم کے خوفناک عمل کا حصہ بن گئے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ عوام کو اپنی پارٹی کا سربراہ ہیرو اور نجات دہندہ نظر آتا ہے جبکہ مخالف پارٹی کا سربراہ ولن کے طور پر گالیوں اور نفرت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ آج تک کسی نے یہ نہیں سوچا کہ سبھی مقبول پارٹیوں اور لیڈروں کو ملک پر حکومت کرنے کا موقع ملا ہے مگر ہر ایک نے برسرِ اقتدار آ کر صرف اپنے اور اپنے ساتھی ایم پی ایز یا ایم این ایز کے حالات ہی بدلے ہیں۔ عوام طویل عرصے سے قطاروں میں لگے ہوئے ہیں۔ سیاستدان سیاست سیاست کھیل کر عوام کو جھوٹے خواب اور جھوٹے وعدوں کے دلفریب جال میں پھنسا کر ایک دوسرے سے لڑا رہے ہیں۔ ہم عوام کا وطیرہ بن گیا ہے کہ اپنے لیڈر کے ہر جھوٹ اور عیب کا دفاع کرنا ہے جبکہ مخالف لیڈر کے ہر اچھے کام کو برا ثابت کرنا ہے۔ ہم قوم کی بجائے بکھر ہوا ہجوم بن کر رہ گئے ہیں جو مختلف ٹولیوں میں بٹا ہوا ہے۔ ہم سب مل جُل کر حکمرانوں سے اپنا حق مانگنے کی بجائے ان کے ہر غاصبانہ عمل کا دفاع کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سیاستدان امیر ترین اور عوام غریب ترین ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دس گیارہ سال سے سیاستدانوں کی بھڑکائی سیاسی جنگ میں عوام خود کو بطور ایندھن جھونک کر اپنے جلنے کا خود ہی تماشا دیکھ رہے ہیں۔
ایک دیہاتی، شہر میں پورا مہینہ مزدوری کرنے کے بعد، دُھلے ہوئے کپڑے پہنے، اپنی ماہانہ تنخواہ لے کر بچوں کے لیے کچھ کھلونے، کپڑے اور گھر کے لیے کھانے پینے کا سامان گٹھڑی میں باندھے اسے سر پر رکھ کر گاؤں جانے والی ویران سڑک پر پیدل جا رہا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ سڑک سے ہٹ کر کماد کی ایک نُکڑ پر دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے گُتھم گُتھا ہیں اور ایک آدھ تھپڑ مُکا بھی چل رہا ہے۔ ان کی باتوں کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ سادہ اور بھلےآدمی نے جب یہ منظر دیکھا تو وہ سڑک سے نیچے اُتر کر ان کی طرف چل پڑا، جہاں وہ دو آدمی لڑ رہے تھے۔ قریب جاکر کچھ صاف سنائی دینے لگا۔ ایک آدمی دوسرے کو کہہ رہا تھا، تُو چور، دوسرا پہلے کو کہہ رہا تھا، تُو ڈاکو۔
دیہاتی بیچارا ان کے پاس پہنچا۔ گٹھڑی سر سے اُتار کر نیچے رکھی اور ان دونوں کو لڑائی سے چھڑواتے ہوئے کہنے لگا کہ ”تم لوگ آپس میں کیوں لڑتے ہو؟“ تو اُن میں سے ایک آدمی بولا: ”ہم ڈاکو ہیں، یہاں سڑک سے گزرتے گاؤں کے دیہاتیوں کو ویرانے میں لے جا کر لوٹتے ہیں، ہماری اس بات پر لڑائی ہو رہی ہے کہ یہ کہتا ہے میں نے تمہاری گٹھڑی لینی ہے، اس کے اندر جو مال ہوگا، اس کا ہوگا جب کہ میں کہتا ہوں کہ نہیں، تم اس دیہاتی کے کپڑے اور دھوتی اتارو اور اس کی جیب میں جتنے پیسے ہوں گے وہ تیرے ہوں گے، گٹھڑی میں نے لینی ہے۔“
پھر دوسرا ڈاکو دیہاتی کی طرف منہ کر کے بولا:
”اچھا پا جی! ہمارا فیصلہ تم خود ہی کرو کہ تم نے گٹھڑی کس کو دینی ہے اور کپڑے اور دھوتی کس کے حوالے کرنے ہیں“
حاصل یہ ہے کہ ہر صورت میں دیہاتی کا ہی نقصان ہے اور اس نقصان کا فیصلہ بھی دیہاتی نے خود ہی کرنا ہے۔
یہ کہانی سُنانے کا مقصد کیا ہے؟
مقصد یہ ہے کہ ہم ہر روز ٹی وی، سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر دیکھتے اور سُنتے ہیں کہ ایک جماعت کا حکمران دوسرے کو چور، دوسرا