انسان کی فطرت میں جستجو، تجسس اور تحقیق کا جذبہ ودیعت کیا گیا ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والا تجسس، جو اسے ستاروں کے پار لے جاتا ہے اور ذرے کی گہرائی میں اتار دیتا ہے۔ کبھی وہ فلسفی کی آنکھ سے کائنات کو دیکھتا ہے، اور کبھی سائنس دان بن کر اس کے رازوں کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی فطری تجسس وہ بنیاد ہے جس پر جدید سائنسی ترقی، آسائشیں اور سہولتیں قائم ہوئی ہیں۔ تاہم، یہ ترقی محض مادی آسودگی تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک گہری کھوج ہے ان دیکھے اصولوں، نادیدہ قوتوں، اور اُس نظم کی تلاش جس کے پیچھے ایک “شعور” ایک ارادہ چھپا ہے۔ جو مسلسل تبدیلی کے ذریعے ہر لمحے اس کائنات کو نئے روپ دیتا ہے۔
اگرچہ کلاسیکی فزکس اس نظریے کی حامل رہی ہے کہ مادہ ہی سب کچھ ہے، مگر جدید طبیعیات اب یہ تسلیم کر چکی ہے کہ مادہ محض ایک پہلو ہے، اور اصل حقیقت “علم” اور “معلومات” ہے۔ آج فزکس یہ ماننے پر مجبور ہو چکی ہے کہ کائناتی نظم کسی خود کار مشین کی طرح محض چلتا ہوا نظام نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک ارادہ، ایک علم، ایک طاقت اور ایک ایسی غیر مادی ہستی کا وجود ہے جو ہر چیز کی خالق اور ناظم ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسان کی معرفت، یعنی “نفس کی پہچان”، اس خالق کی معرفت سے جا ملتی ہے۔ جیسے ہر راستہ اپنی منزل سے جڑا ہوتا ہے، ویسے ہی انسانی وجود کی گہرائیوں میں جھانکنا خالقِ کائنات تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ اسی حقیقت کی طرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ عظیم قول رہنمائی کرتا ہے:
“من عرف نفسہ فقد عرف ربہ”
“جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔”
یہ جملہ بظاہر سادہ مگر حقیقت میں نہایت گہرا اور فکری اعتبار سے کائناتی در وا کرنے والا ہے۔ لغوی طور پر اس کا مفہوم ہے: “جس نے اپنی ذات، حقیقت، حدود اور باطن کو پہچانا، وہ اپنے رب، یعنی خالق و مالک، کو جان گیا۔” یہی معرفتِ نفس کے ذریعے معرفتِ الٰہی کا وہ نظریہ ہے جو امام غزالی، ابن عربی، مولانا روم اور دیگر صوفیاء کے ہاں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
معرفت کا آغاز علم سے ہوتا ہے۔ اور علم کی ہم تین درجات میں تفہیم کر سکتے ہیں: اللہ، انسان، اور باقی کائنات۔ یہی تین محور تمام علوم کی بنیاد ہیں۔ دنیا کی لاتعداد جامعات میں ہزارہا علوم، فلسفہ، آرٹس، انجینئرنگ، طب، طبیعیات، اور علمِ نفسیات دراصل ان ہی تین دائروں کے باہمی تعلق کو سمجھنے کی کوششیں ہیں۔ اور ان سب کا مرکزی سوال ہے۔ “انسان کیا ہے؟” کیونکہ جب انسان، جو خود کائناتی نظم کا کنٹرولنگ یونٹ ہے، خود کو پہچان لیتا ہے، تب ہی وہ اپنے خالق کی پہچان تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
اس حقیقت کو ہم ایک سادہ مگر گہری مثال سے یوں سمجھ سکتے ہیں۔ جس نے ہارڈ ویئر کی ساخت کو جان لیا، وہی سافٹ ویئر کے پیچیدہ کوڈز تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ ایسے ہی جو انسان اپنے جسم، جذبات، ارادوں، ذہن، اور روحانی ابعاد کو سمجھ لے؛ جو عناصرِ اربعہ– مٹی، پانی، ہوا، اور آگ کے ساتھ ساتھ “عنصرِ روح” کی حقیقت کو بھی جان لے، وہی اس کائناتی نظام کے خالق کو حقیقی طور پر پہچان سکتا ہے۔
انسان خود ایک مربوط، پیچیدہ اور حیرت انگیز نظام ہے۔ جسم، عقل، دل اور روح کا مرکب۔ وہ پہلا سبق ہے جسے پڑھ کر رب کی پہچان ممکن ہے۔ اسی لیے قرآن بار بار انسان کو تفکر، تدبر اور تذکر کی دعوت دیتا ہے، تاکہ وہ اپنے آپ میں جھانکے، اور اپنی اصل کو پہچان کر اپنے رب کو پہچان سکے۔
قرآنِ حکیم کی سورۃ الذاریات کی آیت 7 اسی نظم و بُنت کی طرف اشارہ کرتی ہے:
“قسم ہے اس آسمان کی جو بُنے ہوئے راستوں والا ہے۔”
گو راستوں کا ذکر قرآن میں اور حوالوں سے بھی کیا گیا ہے۔ جیسے سورت کہف کی آیت 61-62 میں اللہ فرماتا ہے۔
تو اس نے اپنا راستہ دریا میں سرنگ کی صورت بنا لیا (موسی ء کی مچھلی نے بڑے عجیب طریقے سے راستہ بنایا). مگر یہاں بہت اہم لفظ الحُبُک کو دیکھتے ہیں جس کا مطلب ہے بُنت، جال، ریشے یا دھاگے جو ایک عظیم نظم میں جڑے ہوں۔ جدید فلکیات میں “Cosmic Web” کا تصور اسی معنویت کی ایک سائنسی جھلک پیش کرتا ہے۔ آسمان ستاروں، (روشنی اور انرجی) ڈارک میڑ ( dark matter)، ڈارک انرجی اور انکے باہمی ربط و تحرکات پر مبنی ہے۔ حالانکہ فزکس کے مطابق یہ مادے سے انڑایکٹ ہی نہیں کرتے۔ شائید ابھی سائنس اس کے بارے میں کچھ جان نہیں سکی۔ ورنہ ہم ترقی کا کوئی نیکسٹ لیول حاصل کر لیتے۔ اس لیے اسے سمجھنے کے لیے عمیق غور فکر کی ضرورت ہے۔ تو یہ “حبک” صرف خارجی کائناتی جال نہیں، بلکہ ایک ماورائی انجینئرنگ ہے، جسے کسی معمار نے اپنی کامل ہنرمندی سے ایک محل ترتیب دیا ہو۔ دروازے، راہداریاں، منازل، سب کچھ ایک خوبصورت نظم کے ساتھ کیا گیا ہو۔
جب انسان اپنے وجود پر غور کرتا ہے تو اس کے دو پہلو سامنے آتے ہیں ایک ظاہری جسمانی ڈھانچہ ۔۔ منہ، ہاتھ، دل، معدہ، جگر وغیرہ اور دوسرا اس کا دماغ، جو پورے انسانی نظامِ حیات کا سوفٹ ہاؤس ہے، بلکل حبک کے معنوں جیسا۔ دماغ ایک ایسا پیچیدہ نیٹ ورک ہے۔ اگر اسے سہل لفظوں میں شہر کی لاتعداد چھوٹی بڑی ٹریفک سے بھری سڑکوں پر مبنی نظام کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ یہ بل کھاتی، نیچے اوپر گھومتی، سڑکوں اور اس پہ ہر دم نیلی پیلی لال بتیوں کی روشنیوں میں رواں ٹریفک سے بھرا شہر محسوس ہوتا ہے۔ اگر کسی روشنیوں بھرے شہر میں رات کے پہلے پہر کسی بلند جگہ سے نظارہ کریں تو آنکھوں میں ابھرنے والی روشنیوں بھرے اس منظر جیسا یہ مائنڈ سٹی رواں نیورانز سگنلز ٹریفکنگ سے ہمہ وقت اباد نظر ائے گا۔
بلکل اسی طرح دماغ کے نیورونز کا نظام، شعور کی ترسیل، یادداشت کے کوریڈورز، ارادوں کے دروازے اور لاشعور کے چھپے ہوئے “کمرے” بھی اسی