امن کی ضرورت ہے ۔

از محمّد مہدی

اسلام آباد بابوؤں سے لے کر سفارت کاروں کی بستی ہے ۔ حالیہ پاک انڈیا تصادم کے بعد اس بستی میں آنا ہوا تو جس سفارت کار سے بھی ملاقات ہوئی اس کے زبان پر ان تازہ واقعات کا ہی ذکر تھا۔ میں نے دوران گفتگو کہا کہ یہ صرف پاکستان کا معاملہ نہیں ہے بلکہ دنیا کیلئے پاک چین دوستی سلامتی کا ذریعہ ہے ورنہ انڈیا جس ذہنیت کا حامل ہے وه ہر اخلاقی قدر کو پامال کرنے کی جرات کر سکتا ہے جیسے کہ دنیا بھر میں انڈیا اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کو قتل کرا رہا ہے ۔ اپنے يكم جون دو ہزار تیرہ کے ایک کالم کا حوالہ دیا کہ اس میں امریکی صدر رچرڈ نكسن کی کتاب ” لیڈرز ” کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے چین کے حوالے سے تاثرات بیان کئے تھے ، صدر نكسن نے تحریر کیا تھا کہ ” انیس سو بہتر میں اپنا دورہ چین ختم ہونے پر میں نے آخری جام یہ تجویز کیا کہ ہم ایک ہفتے تک یہاں رہے ہیں ، یہی وه ہفتہ ہے جس نے دنیا کو بدل ڈالا ۔ بعض مبصرین کا خیال تھا کہ میں اس دورے میں ڈرامائی حیثیت میں بہہ نکلا تھا اور میں نے اسے ضرورت سے زائد اہمیت کا حامل گردانا تھا۔ میرا یقین ہے کہ تاریخ اس حقیقت کو ثابت کریں گی کہ اگر چین اور امریکہ کے مابین تعلقات نارمل بنانے کیلئے یہ پہلا قدم نہ اٹھایا جاتا تو آج طاقت کا توازن خطرناک حد تک روس کے حق میں ہوتا جو ہمارے لئے مہلک ہوتا ۔ ” میں نے اس کالم میں عرض کی تھی کہ ” یہی کیفیت پاک چین تعلقات کے حوالے سے بھی موجود ہے ۔ اگر پاکستان اور چین تعلقات میں گرم جوشی نہ لاتے تو مغربی اور سوويت مدد کے طفیل بھارت کی وجہ سے خطے میں عدم توازن برپا ہوجاتا جو پاکستان اور چین کیلئے انتہائی ضرر رساں ہوتا” اس میں کوئی دو راۓ قایم ہی نہیں کی جا سکتی ہے کہ جہاں پر انڈیا کو عسکری محاذ پر رسوائی کا سامنا کرنا پڑا وہی پر سفارتی دنیا میں بھی اس کی بات پر کسی نے کان نہیں دھرے اور پھر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ انڈین میڈیا نے جھوٹ کے اپنے ہی بنائے ہوئے سابقہ تمام ریکارڈ بھی توڑ ڈالے جو دنیا میں جگ ہنسائی کا اچھا بھلا باعث بن رہے ہیں اور سفارت کاروں کی گفتگو میں یہ تمام پہلو مکمل طور پر آشکار تھے ۔ پاکستان اور چین کے قریبی باہمی روابط دنیا بھر میں جانے جانے والی حقیقت ہے مگر جس انداز میں ان چار دنوں میں باہمی تال میل نظر آیا اس نے تو دنیا کو ششدر ہی کر کے رکھ دیا ہے اور اب دنیا یہ جاننے کیلئے بے قرار نظر آ رہی ہے کہ پاکستان اور چین کے یہ باہمی تعلقات مزید کن اہداف تک پہنچنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں . دنیا بھر سے لے کر پاکستان اور چین میں بھی یہ تصور بہت مضبوط ہوا ہے کہ پاکستان کے پاس چینی ٹیکنالوجی ضرور موجود تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے کمال مہارت سے اس ٹیکنالوجی کو استعمال بھی کیا ہے، پاکستان نے فضائی برتری تو انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں بھی حاصل کرلی تھی اصل چیز کسی ٹیکنالوجی کا موجود ہونے سے زیادہ اس کا مہارت سے استعمال ہوتا ہے ۔ پاکستان کی اہمیت ایک مسلمه حقیقت ہے مگر ہمارے یہاں پر انڈیا کے حجم کی وجہ سے اس کے زیادہ طاقت ور ہونے کا ایک بیانيه تراش لیا گیا ہے ورنہ یہ کوئی ماضی نہیں ہے جب جرمن وزیر خارجہ نے اسلام آباد اور اپنے ملک میں کھڑے ہو کر کشمیر کی بات کی تھی اور انڈیا کے جزبز ہونے کے باوجود اپنے مؤقف پر قایم رہی تھی . انڈیا سلامتی کونسل کی ركنيت حاصل کرنے کیلئے بیچين ہوا تو پاکستان نے اٹلی کے ساتھ ملکر سلامتی کونسل کے اراکین کی تعداد نہ بڑھنے دینے کیلئے پاک اٹلی کافی کلب کے نام سے باہمی تعاون حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔ اس وقت بھی اٹلی کی سفیر پاکستان اور اٹلی کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کی غرض سے بہت متحرک ہے ، جس اعلی سطح کے اٹلی کے وفود پاکستان آ رہے ہیں ایسا ماضی قریب میں تو بلکل بھی نہیں ہوا ۔ اٹلی کی نیوی کے جہاز کی پاکستان آمد ، بحری سیاست کو سمجھنے والے اس کی اہمیت سے اچھی طرح سے آگاہ ہیں ۔

پاکستان اگر حکمت عملی اختیار کرے تو یورپ میں پاکستان کی مزید کامیابیوں کیلئے بہت گنجائش موجود ہے . اور صرف بات یورپ ہی کی نہیں ہے ۔ ابھی جب حال ہی میں پاک انڈیا تصادم ہوا تو پاکستان نے چین کی مدد سے افغانستان سے بھی معاملات کو بہتر کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار ون مين آرمی کے طور پر کام کر رہے ہیں اور بہت کامیاب بھی جا رہے ہیں ۔ ہمیں افغانستان کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے ان کی ترجیحات و ضروریات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے اور اپنے اور ان کے نکتہ ہائے نظر کو قریب بلکہ ایک جیسا کرنے پر کام کرنا چاہئے ۔ بعض معاملات بہت دقت طلب محسوس ہوتے ہیں مگر درحقیقت قابل عمل ہوتے ہیں ۔ افغانستان سے اصل معاملہ یہ ہے کہ ماضی میں افغان حکومت اپنے وعدوں پر پورا نہیں اتر سکی تھی ۔ ہمیں بھی ان اسباب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جن کی وجہ سے ایسا ہوا تھا ۔ پاکستان کی روایت رہی ہے کہ پاکستان اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے ۔ ابھی آزربائیجان کو ہی دیکھ لیجئے ، پاکستان نے کامیاب حکمت عملی سے صرف وہاں کی حکومت ہی نہیں بلکہ عوام کے دلوں میں بھی جگہ بنا لی جس کا مظاہرہ ابھی حال ہی میں دنیا نے دیکھا . اسی طرح سے ایران سے ہم بتدريج بہتر تعلقات کی طرف گامزن ہے اور ہمیں چاہیے بھی یہ کہ ایک دوسرے کو سمجھتے ہوئے ، اس کی ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے معاملات کو بہتر کرے ۔

Comments (0)
Add Comment