عزم اپنا چٹان کی مانند
یہ نازک خیال لوگ اپنے عزم بالجزم میں پہاڑوں سے زیادہ مضبوط اور چٹانوں سے زیادہ سخت ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو نزاکتوں کے ساتھ ساتھ زندگی کرنے کے وہ گر سکھا دیئے ہیں کہ مصائب و آلام میں بھی وہ اپنی جدوجہد کی قندیلیں فروزاں رکھتے ہیں ان کی ہمت بلند اور ان کے حوصلے آگ کو گلزار بنا دیتے ہیں، میں نے آج ایک ایسی ہی با ہمت، جواں فکر، جواں سال خاتون کی بات کر رہا ہوں جس نے بڑی ہمت کے ساتھ زندگی گزاری ہے اور خود کو کبھی بھی قابل رحم تصور نہیں کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا ان لوگوں کی ہے جو باہمت ہیں اور جن میں جذبہ کی گرمی موجود ہے ۔ عزم و ہمت کی کوہ گراں کے عزم بالجزم کے سامنے ہمالہ بھی ڈھیر ھے ، اس کا نام لینے سے پہلے ارادت و عقیدت کے چراغوں کی روشنی کی لو میں اس ہستی کے بارے میں بتانا چاھتا ھوں جنہوں نے ذھانت و فطانت کی پیکر متحرک سے متعارف کروایا ، میری مراد پروفیسر ڈاکٹر عابدہ بتول کی ذات گرامی سے ہے ، روبیہ مریم روبی کا تعلیمی پس منظر بڑا شاندار کامیاب اور مؤثر ہے ، موصوفہ برقی ذرائع ابلاغ کی مستند و معتبر نقیب محفل ہے ،
روبیہ مریم روبی کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ایم۔فل اردو کر چکی ہیں۔قلمی نام روبی ہے۔مزاح نگار،کالم نگار،افسانہ نگار،شاعرہ اور آرٹسٹ ہیں۔لکھنے کا باقاعدہ آغاز چھٹی جماعت سے ہوا۔بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔اپنے آپ کو جاننا اور کائنات کے رازوں کو سمجھنے کا تجسس تھا۔اس لیے ہر قسم کی کتب پڑھتی ہیں۔بچوں کا اوّل سے پنجم تک اُردو کا نصاب لکھ چکی ہیں۔دو کتابیں “مزاح نامے” اور “صحافیے” لکھ چکی ہیں۔ان کی سو لفظی کہانیوں پر مشتمل تیسری کتاب زیرِ اشاعت ہے۔سنجیدہ شاعری کے علاوہ مزاحیہ شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتی ہیں۔
اُردو اور صحافت میں خاص دلچسپی ہے۔اینکرنگ کرنا چاہتی ہیں
اس لیے ذرائع ابلاغ کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ سوشل ورک بھی کر رہی ہیں۔سوشل ایکٹیوسٹ ہیں۔نوجوان مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لیے انہوں نے ایک آن لائن رسالہ “کشمیری پھول” کے نام سے جاری کیا۔ان کا کہنا تھا جو بچپن میں محرومیاں میں نے دیکھیں میں نہیں چاہتی کوئی اور دیکھے! اس لیے مصنفین کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان اور کشمیر کا ہر شہری باشعور ہو۔عورتوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔
بہت سے علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں۔ادب کا گولڈ میڈل اپنے نام کر چکی ہیں۔گجرانوالہ سے الفانوس کے تحت ہونے والے مقابلے سے ان کی پہلی کتاب “مزاح نامے” کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔مختلف مقابلہ جات میں کیش پرائز جیت چکی ہیں۔ادب میں انقلاب چاہتی ہیں۔ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کرنا چاہتی ہیں۔افسانوں،مزاح،سو لفظی کہانیوں،مضامین،شاعری،کالموں،افسانچوں،منٹیوں اور سوشل ناموں پر طبع آزمائی کر چکی ہیں!آج کل ایک ناول کی تکمیل کے لیے کام کر رہی ہیں۔”سوشل نامے” ان کی ذہنی اختراع ہے،ایسی تحاریر جن میں معاشرے کی نفسیاتی اور خارجی طور پر بھرپور عکاسی کی گئی ہو اس کو سوشل نامے کہتے ہیں۔ادبی تقریبات میں متحرک رہتی ہیں۔کمپئیرنگ پسندیدہ ہے۔اور مقابلہ جات میں حصہ لیتی رہتی ہیں۔بے شمار سیمینارز کروا چکی ہیں۔ریسرچ اسکالر ہیں۔
دو عالمی کانفرنسوں میں پیپرز پڑھ چکی ہیں۔مختلف ایونٹس میں کوریج کرتی ہیں۔شخصیات کے انٹرویوز کرتی ہیں۔صحافتی سرگرمیوں میں متحرک رہتی ہیں۔غریب اور کمزور لوگوں کی آواز بننا چاہتی ہیں۔کافی عرصہ تدریس کے شعبے سے منسلک رہی ہیں۔ایک کالج میگزین کی ایڈیٹر رہ چکی ہیں۔
ان کے بارے میں کراچی سے شائع ہونے والے ماہنامہ انوکھی کہانیاں میں لکھا گیا تھا!
محنت سے آگے بڑھ رہی ہیں روبیہ مریم روبی
کامیاب لوگوں کی یہی تو ہوتی ہے خوبی
اسلام آباد سے شائع ہونے والی کتاب “ادب سماج اور انسانیت” میں ان کی ایک شائع شدہ غزل کو پی۔ایچ۔ڈی کے ایک مقالے میں شامل کیا گیا ہے۔