ہاتھ جوڑتی انسانیت

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

ساری دنیا تماشا دیکھتی رہی، اور ایک حوا کی بیٹی ادھر سے اُدھر دوڑتی ایک ایک سےمنت سماجت کر کے اپنے بھائی کو تشدد سے بچانے کے لیے جدوجہد کرتی رہی ۔بھائی کے چہرے پر تھپڑ پڑتے رہے بہن تڑپتی رہی لیکن آنسو بہن کی آنکھوں سے بہے۔بےبس بہن کے ہاتھ جوڑے لرز رہے تھے، مگر ظالم کا دل نہ کانپا اور نہ ہاتھ رکا ۔وہ جتنا چیخ سکتی تھی چیختی رہی ، پیر پکڑتی رہی ،ہاتھ جوڑ کر التجاکرتی رہی: “اللہ کے واسطے چھوڑ دو!”وہ چیختی رہی گڑگڑاتی رہی پورے ہجوم سے مدد مانگتی رہی ،انصاف مانگتی رہی ،تحفظ طلب کرتی رہی لیکن اس کی فریاد سننے والا وہاں کوئی نہ تھا ۔ایک بےحس ہجوم وہاں جمع تھا لیکن خاموش اور خوف زدہ سا   یہ سب دیکھ رہا تھا  ۔ان کی بےبسی ان کے چہروں پر دکھائی دیتی تھی  وہ عورت صرف اس بھائی کی بہن ہی نہ تھی کھلےسر دوڑتی اس  پوری قوم کی بیٹی تھی جو کبھی مارنے والوں کے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھی منت کر رہی تھی تو کبھی اس ہجوم  کے سامنے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی ۔اس ظالم کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی حوا کی بیٹی کی تصویر نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔گزشتہ روزڈیفنس فیز 6 میں لگژری گاڑی سے اس کے بھائی کی موٹر سائیکل کی ٹکر سے پیدا ہونے والی اس   دردناک صورتحال مختلف  کو لوگوں نے موبائل پر  ریکارڈ تو کیا لیکن اس کی مدد کے لیے کوئی آگے نہ بڑھا ۔اسے بے بسی یا  خوف کہیں یا قانون کا احترام سمجھیں کہ جہاں ایک شہری کو گاڑی میں ڈال کر گارڈ کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔اور وہ بھی اس کی بہن کے سامنے  جو خاتون ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہتی رہی “اللہ کے واسطے چھوڑدیں ” لیکن ظالم نے ایک نہ سنی اور مارتارہا،دھمکیاں بھی دیتارہا۔۔ویڈیو سوشل میڈیاپرآتے ہی یہ بات چرچے میں آگئی۔۔محکمہ داخلہ کانوٹس لیتے ہی پولیس بھی اِن ایکشن ہو چکی ہے لیکن بےشمار سوالات اب بھی ذہن میں گردش کر رہے ہیں ۔ایک کے بعد ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے سے یہی خیال آتا ہے کہ شکر ہے کہ لوگوں میں اتنی جرت تو ابھی باقی ہے کہ گو وہ کسی طاقتور کا ہاتھ تو نہ روک سکے مگر اس واقعہ کہ تصاویر اورویڈیوز تو بنانے کی ہمت کرلی ہے ۔شاید  ظلم کی ویڈیو بنانا ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور آواز اٹھانے  سے زیادہ آسان ہوتا ہے ۔یہ ظلم اورتشدد کسی ایک  ایلیٹ کلاس فرد کا عمل نہیں  یہ ایک سوچ ہے جو ایک مخصوص کلاس میں پائی جاتی ہے جو خود کو قانون سے بالاتر سجھتے ہیں ۔اور سوشل میڈیا پر آۓ دن ایسے تشدد کی بےشمار ویڈیو  ز  دیکھنے میں آتی ہیں ۔ا یک ویڈیو وائرل ہوتی ہے تو چند لمحوں میں ہزاروں لوگ دیکھتے ہیں ،کچھ افسردہ ہوتے ہیں تو کچھ غمگین ہوتے ہیں ،کچھ مذمت کے دو لفظ لکھ کر اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں اور اگلے ہی لمحے اسے بھول جاتے ہیں ۔کیا ہم  واقعی اس قدر بےحس ہوچکے ہیں ؟ یا پھر اس نظام سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ صرف موبائل کی اسکرین کے پیچھے چھپ کر لفظی مذمت کو ہی بہت سمجھا جاتا ہے ۔کیا یہ رویہ ہمارے معاشرتی اور اخلاقی زوال کی جانب اشارہ نہیں کر رہا ہے ؟ سڑکوں پر عدالتیں اور خود سزا دینے کا یہ بڑھتا رجحان اور طاقتور سوچ کی فرعونیت ہے یا پھر ہماری بے بسی اور  بزدلی ہے ؟ یا پھر اپنی معاشرتی  ذمہداری سے فرار  ہے ۔یہ کیسامعاشرہ ہے جہان فیصلے سڑکوں پر خود ہی کر لیے جاتے ہیں اور سزا بھی سرعام دے کر نشان عبرت بنایا جاتا ہےخود ہی قانون ،خود ہی منصف اور خود ہی جلاد بننے میں کیا دیر لگتی ہے   ۔کراچی کی اس ستم رسیدہ بیٹی کا جرم یہ تھا کہ وہ کسی بڑی گاڑی کی بجاۓ اپنے بھائی کے ساتھ ایک موٹر سایکل پر سوار   تھی  ۔جس موٹر سایکل کے ٹکرانے سے کسی کی بڑی گاڑی پر پڑنے والی خراش نے انسانیت پر خراشیں ڈالنا شروع کردیں ۔ لوہے کی خراش کے بدلے انسان کے جسم پر تشدد کی خراشیں ڈال دینا کہاں کی بہادری ہے ۔یقین کریں قوم کی اس بیٹی نے ہم سے کچھ نہیں مانگا  ،بس اتنا کہا کہ کہ “مجھے سنو میری فریاد سنو ” میری چیخیں سنو  میں اس قوم کی بیٹی ہوں ،میں حوا کی بیٹی ہوں  ۔ خدارا ! یہ فریاد ضرور سنیں   ،اسکی بےبسی کو محسوس کریں اور اسے اس مرتبہ ہارنے نہ دیں ۔ورنہ اس سے قبل اس طرح کے ناجانے کتنے ہی واقعات سامنے آۓ مگر طاقتور کے سامنے غریب کی بےبسی ہمیشہ ہار جاتی ہے ۔یقینا” قانون نافذ کرنے والے ادارے جو خود بھی ماوں ،بیٹیوں ، بہنوں اور بچوں والے ہیں  قوم کی اس بیٹی کو انصاف ضرور دلائیں گے ۔مجرم خواہ کتنا بھی بااثر ہو قانون کے شکنجے میں ضرور آۓ گا ۔طاقت کا توازن  غریب کی پکار کے وزن سے ضرور اس کے حق میں جھکے گا ۔مجرم کی سزا ایسی ہونی چاہیے جو آئندہ کے لیے مثال ثابت ہو ۔ہمیں اس جرم کے خاتمے سے زیادہ اس سوچ کے خاتمہ کے لیے آواز اٹھانا ہوگی ۔اس واقعہ کو منطقی انجام تک پہنچانا اب قانون کی ذمہ داری ہے ۔ہم اپنے قانون اور اسے نافذ کرنے والے اداروں سے پرامید ہیں کیونکہ اس سوچ کا خاتمہ ہم سب کی ذمہ داری اور ضرورت ہے ۔

یہ لمحہ ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے اگر ہم واقعی ا یک زندہ قوم ہیں ۔ورنہ بےحسی کے قبرستان  ایک اور فریاد دفن ہو جا ۓ گی اور ہم اگلی ویڈیو کےمنتظر رہیں گے ۔اگر ہم اب بھی خاموش رہے تو ایک دن ہر گھر  سے ایسی فریادیں گونجیں گیں مگر سننے والا کوئی نہ ہو گا ۔کیا ہم اور ہماری اولادیں اسی معاشرے میں پروان چڑھیں گے جہاں آواز اٹھانے والا خود مجرم بن جاۓ ؟ کیا ہم صرف سکرینوں کے پیچھے  چھپ کر انسان کہلانے کے حقدار ہو سکتے ہیں ؟کیا ہم ایک مظلوم لڑکی کی فریا کرنے پر اسے سننے اور مدد کرنے کی بجاۓ صرف ویڈیو بناتے رہیں گے ؟ بےحسی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ظلم معمول بن جاۓ ۔جب انسان کے اندر  درد کی جگہ  بےاعتناعی آجاۓ ۔جب مجرموں کے چہرے سب کو نظر آئیں مگر سزا نہ پائیں ۔جب سچ بولنے والا  خود  کٹہرےمیں کھڑا ہو۔ جب ایک مظلوم لڑکی کی فریاد  کرنے پر بھی مدد کی بجاۓ ہجوم ویڈیو بناتا رہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم بےحسی کا شکار ہیں یا پھر خوفزدہ ؟ یا پھر قانون کا خوف ظالم کا ہاتھ روکنے میں روکاوٹ ہے ۔میری اشرافیہ اور اس طاقتور طبقے سے بھی گزارش ہے کہ اس سوچ کو بدلو کسی کمزور کو مت دباؤ قانون سب کے لیے برابر ہے اور کسی کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ    اسے اپنے ہاتھ میں لے ورنہ تمہاری تباہی بھی دور نہیں ۔طاقت وقتی ہوتی ہے مگر ظلم کی بازگشت صدیوں تک سنائی دیتی رہتی ہے ۔ہر وہ شخص جو کسی کی مجبوی اور بے بسی سے فائدہ اٹھاتا ہے کسی معصوم کی مجبوری اور کمزوری کو اپنی فتح سمجھتا ہے دراصل وہ اپنے زوال کی بنیاد رکھ رہا ہوتا ہے ۔خاموشی عرش کو ہلا دیتی ہے ۔ کمزور کی آہ  میں وہ طاقت ہے جو بڑے بڑے تاج وتخت کو مٹی میں ملا دیتی ہے خدا کی لاٹھی بے آواز ہے مگر بےاثر نہیں جو بوؤ گے وہی کاٹو گے ۔کمزور کو دبانے والے خود وقت کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں ۔تمہاری طاقت کا مصرف کسی کو نیچا دکھانا نہیں بلکہ بڑائی کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو سہارا دیا جاۓ ۔خاموش فریاد اور کسی غریب کی بےکسی آسمان پر گونجتی ہے اور جب اللہ کے انصاف کا قلم حرکت میں آتا ہے تو پھر نہ وقت بچتا ہے ،نہ طاقت ،نہ دولت اور نہ ہی رتبہ ہی کام آتا ہے ۔

Comments (0)
Add Comment