ویسے تو دنیا میں اختیارات کی جنگ عروج کو پہنچ چکی ہے اور ہر طبقہ اپنے اپنے اختیارات کے بارے میں متفکر بھی ہے اور ان اختیارات کے حصول کے لئے متحرک بھی ہے۔ بعض تو بہت ہی متحرک ہیں۔ جنگ اختیارات کی ہو یا ہندوستان اور پاکستان کی۔ دونوں صورتوں میں نتائج بھیانک ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ ویسے جنگیں جنگیں ہوتی ہیں ان کو شروع کرنے سے پہلے ان کے ممکنہ نتائج پر غور کرنا بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔ جلدبازی میں شروع کی جانے والی جنگ اکثر اوقات گلے پڑ جاتی ہے اور پھر گلے پھاڑ پھاڑ کر اس کو زبردستی جیت کے کھاتے میں ڈالنے کے لئے زمین آسمان کے قلابے ملانا پڑتے ہیں اور پھر بھی بات وہیں کی وہیں رہتی ہے اور خونخوار مودی اور مودی کی دھمکیاں۔ دھمکیاں دینے سے یاد آیا جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ہے۔ حالات نارمل ہونے ہر کچھ وقت لگے گا۔ فی الحال حوا کی بیٹی کی بات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آدم اور حوا کا سفر ایک وقت اور ایک دن کو ہی شروع ہوتا ہے اور منزل ایک راز۔ منزل تک پہنچنا بہت ہی کٹھن اور مشکل۔ دونوں کا ایک ٹارگٹ اور ٹارگٹ کے حصول کے لئے ایک ہونے کی اشد ضرورت۔ منزل دور بلکہ بہت ہی دور اور سفر پرخار۔ کہاں سری لنکا اور کہاں جدہ۔ برابر کی محنت۔ برابر کی جستجو اور برابر کی دوڑ دھوپ۔ جب شدید دھوپ ہوتی ہے تو سفر بھی مسلسل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دم لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دم لینے اور دم کرنے میں کافی فرق ہوتا ہے۔ سوچ کو فکر کی کافی سے متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ملاپ اور وصل یک نہ شد دو شد اور پھر اختیارات کا تعین۔ مرد اور عورت کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔ عورت مرد کا لباس ہے اور مرد عورت کا لباس ہے۔ دونوں کے اختیارات کے حدود قیود کا تعین کردیا گیا ہے۔ اور یہ بھی طے شد کہ دونوں کی حیثیت برابر۔ انسان بھلن ہار۔ میں ناں مانوں اور پھر حوا کی بیٹی۔ اف اللہ اف اللہ بلکہ اللہ ہی اللہ۔ پاوں کی جوتی سمجھ لی گئی۔ گھر کی چار دیواری میں محصور کردی گئی بلکہ بعض اوقات تو دیوار میں چن دی گئی۔ شک کی بنیاد پر تھاں مار دی گئی۔ علم کی دنیا سے کوسوں دور رکھنے کی حتی المقدور پوری کوشش کی گئی۔ سر بازار نچادی گئی اور بسا اوقات تو کھلونا سمجھ کرتوڑ دی گئی۔ کیا کیا نہ ہوا آدم کی پسلی سے تخلیق ہونے والی حوا جائی کے ساتھ۔ یہ ہے اختیارات کی جنگ اور اسی لئے عورت کا بااختیار ہونا ٹھہرا شرط۔ نہیں تو بقول علامہ محمداقبال رح( آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں۔۔۔محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی) تنگ آمد بجنگ آمد اور پھر آنکھیں کھول کر رکھنے کے دن آگئے ہیں۔ پوری دنیا میں اس موضوع پر بحثیں چھڑ گئیں اور عورت بااختیار کے حق میں آوازیں اور ان آوازوں میں شدت۔ اس کے نتیجے میں اپنے آپ کو بدلنے والوں کی تقدیر بدل گئی اور ایک ایک ہوتا ہے اور دو گیارہ۔ ویسے بھی گیارہویں کو کھیر پکتی ہے اور وہ بھی تھوک کے حساب سے اور پھر مل بیٹھ کر کھانے کا کلچر فروغ پاتا ہے۔ منہ میٹھا اور دل صاف۔ یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لئے
کافی ہو گیا ہے اب ہم سب کو ہوش کے ناخن لینا ہو نگے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے بلکہ مل کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ راجن پور ضلع پنجاب کی ٹیل پر ہے اور ٹیل پر پانی کم کم ہی پہنچتا ہے۔ اس لئے راجن پور کے مسئلے مسائل۔ چپ ہی بھلی ہے۔ غربت سب سے اہم مسئلہ اور دیگر بھی بے شمار مسائل۔ یہاں کی عورت۔ سکولوں کالجوں سے دور اور وہ بھی کافی حد تک دور۔ کلچر عورت کے بارے میں ضرورت سے زیادہ محتاط۔ وراثت کے دروازے مکمل طور پر بند اور گھر کے دروازے تو مقفل بلکہ سیل بند۔ گلوبل دور کا آغاز اور پوری دنیا انسان کی ہتھیلی پر بلکہ جیب میں ایک موبائل اور نیٹ کنکشن اور یوں ارد گرد ہونے والی تبدیلیوں کا بچشم خود ملاحظہ۔ ملاحظہ کے دوران ہوشیار تو ہونا پڑتا ہے۔ عبادات اور معاملات کو ملا کر چلانا پڑتا ہے۔ صرف سوچ بیدار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور صاحبان علم وعقل و دانش کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ علم، عقل اور دانش قبیل کے لوگوں کے ذمے یہ کام سپرد ہوگیا ہے اور اب ان پر ہے کہ وہ انسان کو کیسے جھنجوڑتے ہیں۔ مذکورہ ضلع میں عورت با اختیار کے موضوع پر ضلعی انتظامیہ، پنجاب آرٹس کونسلز ڈیرہ غازیخان/ بہاولپور اور پی پی اے ایف کے اشتراک سے ایک قومی کانفرنس کا انعقاد۔ ہواؤں کا رخ تبدیل ہو چکا ہے۔ کانفرنس میں خواتین کی بھر پور نمائندگی اور پھر ان کے انقلابی خیالات۔ اب عورت کو بھی اپنے اختیارات کا واقعی احساس ہو گیا ہے اب ایسا ہو بھی جانا چاہیئے تھا۔ جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بطور وزیر اعظم اپنے آپ کو ثابت کیا ہو اور عصر حاضر میں محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلٰی پنجاب کا دور۔ تحریک کا دور۔ محنت کرنے کا دور۔ جدت کا دور بلکہ آئی ٹی کا دور۔ کچھ کرنے کا دور بلکہ بہت ہی کچھ کرنے کا دور۔ مرد عورت کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا۔ اولین ترجیح اور ان سارے اقدامات کے نتیجے میں امید کی کرن۔ یہ ہے عورت بااختیار۔ موضوع کی مناسبت سے مقامی اور دیگر شہروں سے آئے ہوئے مقررین نے فکر انگیز گفتگو کی۔ پروفیسر نعیم مسعود، پروفیسر انجم طاہرہ، پروفیسر ڈاکٹر عبدالقادر مشتاق تو خیر پروفیسر تھے ان کی گفتگو نے بھی سامعین کو موضوع کی اہمیت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔ میاں عتیق احمد ڈائریکٹر آرٹس کونسل بہاولپور اور نعیم اللہ طفیل ڈائریکٹر آرٹس کونسل ڈیرہ غازی خان نے بھی فکر انگیز گفتگو کی اور پھر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی خواتین کے خیالات۔ کمال