گذشتہ روز ایک یونیورسٹی میں گیسٹ سپیکر انوائٹڈ تھا تو طلبہ و طالبات نے لاہور ٹریفک پولیس کے رویوں پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے طلبہ کی آواز وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف تک پہنچانے کی درخواست کی۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ موجودہ سیاسی لاٹ میں مریم نواز واحد سیاستدان ہیں جو نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبول ہیں، طلبہ کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے اسٹوڈنٹ اسکالرشپ، لیپ ٹاپ، سکوٹیز اور انٹرنشپ سمیت دیگر تعلیمی وظائف دیے ایسی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ایک طالب علم نے ”دھی رانی“ پروگرام کا ذکر کیا کہ مریم نواز کے دھی رانی پوگرام کی وجہ سے اس کے گاؤں میں بہت ساری بچیوں کی باعزت شادی ممکن ہوسکی واقعی مریم نواز نے حقیقی ماں کا کردار ادا کیا۔
طلبہ کا کہنا تھا کہ مریم نواز اس لیے سب سے زیادہ مقبول ہیں کہ وہ ہمارے روشن مستقل کی بات کرتی ہیں جبکہ ان کے مقابل سی ٹی او نوجوانوں کا مستقل خراب کرنے اور کریمینل ریکارڈ بنانے کا دھمکیاں دیتا ہے۔ طلبہ نے چند واقعات کا ذکر کیا کہ ان کو وارڈن روک لیتے ہیں اور بلا وجہ چالان کرتے ہیں اگر وارڈن کو کہو کہ تم سٹوڈنٹس کا چالان کرتے ہو لیکن ساری وائلیشن کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ کو کیوں نہیں روکتے تو آگے سے دھمکیاں ملتی ہیں کہ زیادہ چوں چاں کی تو ایف آئی آر دے کر تھانے بند کردوں گا۔ ایک طالب علم نے سوال کیا کہ ان ساری زیادتوں اور زورزبردستی کی ویڈیو بنانے پر عوام کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت پرچہ کاٹ دیا جاتا ہے جس وجہ سے ان ساری بدمعاشیوں کے ویڈیو ثبوت دینے کا بھی کوئی حل باقی نہیں رہا لیکن یہ وارڈن خود ہماری ویڈیو بنائیں تو ان کے خلاف کوئی پیکا ایکٹ نہیں لگتا؟۔ طلبہ و طالبات نے وزیراعلیٰ سے درخواست کی ہے کہ ٹریفک پولیس کی بدمعاشی کے خاتمے کیلئے وارڈن کو باڈی کیم لگائے جائیں۔
ٹریفک پولیس ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی لیکن یہ اصل کام چھوڑ کر ریونیو اکٹھا کرنے، شہریوں کے گریبان پکڑنے اور انکو سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے میں لگ چکی ہے۔ ٹریفک کی روانی میں ناکامی، نااہلی، جعلی سازیوں کی پردہ پوشی اور نمبر گیم کے لیے معزز شہریوں پر ایف آئی آرز کرانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹر اور ناجائز پارکنگ مافیا کو ہر کام کی کھلی چھوٹ ہے۔
پنجاب پولیس میں جب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نئے لڑکے ایس ایچ او آئے ہیں بلاوجہ ایف آئی آر کے اندراج میں قابل تعریف حد تک کمی آئی ہے۔ دست درازی سمیت معمولی معاملات میں نوجوان ایس ایچ او تسلی سے بات سن کر بہت سے معاملات میں صلح کروادیتے ہیں جسے بہت سراہا جارہا ہے۔ لیکن ٹریفک وارڈن نے ایف آئی آر کو مشغلہ بنا کر یہ کام ہی پکڑ لیا کہ پرچے دیے جارہے ہیں۔ہزاروں شہریوں اور طالب علموں کا کرمینل ریکارڈ بناکر ان کا کیریئر تباہ کر کے انہیں جرائم کے راستے پر دھکیلنا ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس طرح کی کاروائیوں سے شہریوں کے دل میں ٹریفک پولیس کے خلاف جو نفرت پیدا ہورہی ہے وہ زندگی بھرمحکمہ پولیس کا تعاقب کرتی رہے گی۔
ٹریفک پولیس خاص طور پر لاہور کے وارڈن آئے روز کسی نہ کسی سے دست و گریبان ہوتے نظر آتے ہیں، ایک طرف ٹریفک پولیس عام شہریوں کے خلاف ظالمانہ کارویوں میں پیش پیش ہے تو دوسری طرف لاہور سمیت پنجاب میں پبلک ٹرانسپورٹرز کی اکثریت نشئیوں اور کمرعمر ڈرائیور کی ہے لیکن کوئی کاروائی نہیں کیونکہ وہ مبینہ طور پر “ راہداری“ دیتے ہیں اس لیے پبلک ٹرانسپورٹرز کو ڈرائیونگ لائسنس، فٹنس سرٹیفیکیٹ اور نمبر پلیٹ کی بھی کھلی چھٹی دے رکھی ہوتی ہے۔
تین لاکھ رکشوں سے ہزار روپے روزانہ کے حساب سے تیس کروڑ روزانہ، پچانوے ہزار،ٹویٹا ہائی ایس اور ٹرک وغیرہ سے دو ہزار روزانہ کے حساب دو کروڑ روزانہ، کارگو اڈوں، مارکیٹس، شوروزمز کی روڈ پارکنگ اور پرائیویٹ دفاتر کی روڈ پارکنگ سے کم ازکم پانچ کروڑ روزانہ وصولی کی افواہیں زبان زد عام ہیں۔ یہ رقم چالیس کروڑ روزانہ اور 1200کروڑ ماہانہ بنتی ہے۔
اگر یہ سارے دعوے جھوٹے ہیں تو وزیراعلیٰ پنجاب سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ نکلوا لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
پابندی کے باوجود کیا 11 بجے سے پہلے ہی لاہور میں غیر قانونی طور پر ہیوی ٹریفک داخل نہیں کروانا شروع کردی جاتی؟
کار شورومز اور پرائیویٹ دفاتر کو سرکاری سڑک پر گاڑیاں پارک کرنے کی کھلی چھوٹ کس قانون کے تحت؟ چاہے عوام راستوں کے بندش سے خوار ہوجائے ٹریفک پولیس کو اپنی ریگولرکمائی کے سوا کسی سے کوئی غرض نہیں۔
بیچ سڑک ریڑی بازار اور ریسٹورنٹس کیوں چل رہے ہیں؟
جس چوک میں کھڑے ہو کر معمولی سی غلطی پر معزز شہریوں کے چالان اور ایف آئی آر دی جارہی ہوتی ہیں اسی جگہ رکشہ سمیت پبلک ٹرانسپورٹ مبہم یا بنا نمبر پلیٹ رانگ وے کی خلاف ورزی اور بیچ سڑک پارکنگ نہیں کر رہے ہوتے؟
پبلک ٹرانسپورٹ والے بغیر نمبر پلیٹ ہونے کی وجہ سے نا صرف کھلم کھلا ”ون وے“ کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ اشارے پر رکنے کی بھی زحمت نہیں کرتے اور حادثات کا باعث بن رہے ہیں۔
نمبر گیم پوری کرنے کیلئے صرف اس پبلک ٹرانسپورٹ کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے جو مبینہ طور پر روزانہ”راہداری“ نہیں دیتے۔
کمرشل ٹرانسپورٹرز فاسٹ لین میں گاڑی چلا کر سب کا راستہ روک لیتے ہیں۔ سرکاری اور بااثر کن ٹٹوں نے بغیر اجازت گاڑیوں کے شیشے کالے کیے ہوتے ہیں۔ ٹریفک پولیس تیز فلیش لائٹ والوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کررہی۔
ٹریفک پولیس کی اپنی موٹربائیک سمیت دیگرسرکاری گاڑیاں بنا نمبر پلیٹ ہیں یا نمبر پلیٹ کے آگے اضافی راڈ لگا کر نمبر پلیٹ کو چھپایا ہوتا ہے۔ جب قانون کے رکھوالے ہی قانون توڑیں گے تو پھر عام شہریوں سے کیونکر قانون کی پاسداری کی امید رکھنا۔