نان فائلرز کے خلاف سخت اقدامات کا فیصلہ

تحریر: رفیع صحرائی rafisehraee5586@gmail.com

صدا بصحرا
رفیع صحرائی
نان فائلرز کے خلاف سخت اقدامات کا فیصلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نئے بجٹ پر مذاکرات جاری ہیں۔ یہ مذاکرات 23 مئی تک جاری رہیں گے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو نان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ یاد رہے حکومت نے اسی سال جنوری میں بھی نان فائلرز پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا تھا۔ حکومت کی اس مہم کے نتیجے میں اب تک تاجروں اور ہول سیل کیٹیگریز میں فائلرز کی تعداد میں 51 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق اب ٹیکس سسٹم سے نان فائلرز کی کیٹیگری ختم کرنے پر کام جاری ہے۔ نئے بجٹ میں نان فائلرز کے لیے آسانی نہیں بلکہ مزید سختی ہو گی۔ نان فائلرز کے لیے گاڑیوں اور جائیداد کی خریداری پر پابندی ہو گی۔ نان فائلرز لین دین کی ٹرانزیکشن نہیں کر سکیں گے۔ آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ تاجر دوست سکیم اپنے اہداف پورے نہیں کر سکتی۔ غیررجسٹرڈ دکان داروں پر ودہولڈنگ ٹیکس بڑھانے کے مثبت نتائج نکلے ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف وفد کے ساتھ آمدن اوراخراجات پر حتمی مذاکرات ہوں گے۔ آئی ایم ایف نے حکومت سے اپنے اخراجات کم کرنے اور آمدن بڑھانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ مذاکرات میں تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح کم کرنے پر بھی بات چیت ہو گی اور اس حوالے سے حکومت دس سے بارہ لاکھ روپے سالانہ تنخواہ لینے والوں کو ٹیکس فری کرنے کی کوشش کرے گی۔ پہلے یہ حد چھ لاکھ روپے ہے
دنیا بھر میں حکومتیں عوام کے دیئے گئے ٹیکسوں سے چلتی ہیں مگر ہمارے ہاں ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے کہ حکومتوں کو امورِ سلطنت چلانے کے لیے دوسرے ملکوں، بنکوں اور آئی ایم ایف سے بھاری سود پر قرضہ لینا پڑتا ہے۔ ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے جبکہ عوام مہنگائی کی چکی میں پسنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہر حکومت ذمہ داریاں سابقہ حکومت پر ڈال کر خود کو عہدہ برآ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اصلاحِ احوال کی طرف کسی حکومت نے غیرمقبول ہونے کے خوف سے کبھی توجہ ہی نہیں دی۔ ہر حکومت نے ہمیشہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہی اختیار کی ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں چاہتی کہ وہ اپنی حکومت کے دوران سیاسی ساکھ کھو بیٹھے۔ سیاست بچاتے بچاتے ملک کی ناؤ میں بڑھتے سوراخ کو کسی نے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ ضرورت کا احساس سبھی کو تھا مگر اقتدار ملکی مفاد پر غالب آتا رہا۔
موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے اپنی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی ترقی اور خوشحالی کے سفر کی درست سمت پہلے دن سے ہی متعین کر کے آگے بڑھنا شروع کیا ہوا ہے۔ اس کے لیے اسے بہت سے مشکل اور تلخ فیصلے بھی کرنا پڑے مگر مستقل مزاجی سے اس حکومت نے ہر قسم کی مخالفت اور مشکل کا سامنا کرتے ہوئے تمام رکاوٹوں کو کامیابی سے عبور کر کے بہت سا سفر طے کر لیا ہے۔ حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کے علاوہ شرح سود میں نمایاں کمی کر کے کاروباری مواقع پیدا کیے ہیں۔ سنا ہے بجلی کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر بہت بڑی کمی لانے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے خصوصی اقتصادی زونز کو حاصل مراعات بتدریج ختم کرتے ہوئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بروقت ایڈجسٹمنٹ کو یقینی بنایا جائے۔ دیکھتے ہیں حکومت اس صورت حال سے کیسے عہدہ برآ ہو پاتی ہے۔ ابتدا میں پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے حکومت کو بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے کرنے پڑے تھے۔ یہ کام شوق سے نہیں کیا گیا تھا۔ مجبوری کے عالم میں یہ کڑوا گھونٹ بھرا گیا تھا۔ ناقدین اور مخالفین ہمارا حشر سری لنکا جیسا ہونے کی پیشگوئی کر چکے تھے لیکن ان کا یہ خواب شرمندہ تعببیر نہ ہو سکا۔ ملکی کشتی کو گرداب سے نکالنے کے بعد اب عوام کو حکومت نے ریلیف دینا شروع کر دیا ہے مگر سب کچھ صرف حکومت پر ڈال دینا مناسب نہیں ہے۔ عوام کو بھی ملکی استحکام اور تعمیر و ترقی میں اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام اپنے حصے کا ٹیکس ایمان داری سے ادا کرنا شروع کر دے تو ہم نہ صرف پاکستان پر چڑھے قرض کو اتارنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ ملک بھی تیزی کے ساتھ ترقی کی جانب گامزن ہو جائے گا۔
نان فائلرز کو فائلرز بنا کر ٹیکس نیٹ میں لانے کی حکومتی کوششیں قابلِ داد ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ٹیکس دینے کا کلچر ہی نہیں ہے۔ اسے ذمہ داری کی بجائے بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھرپور مہم کے ذریعے لوگوں کے اندر ٹیکس دینے کے لیے آمادگی پیدا کرے۔ اس کام کے لیےصرف مذاکرے اور تقاریر ہی نشر نہ کی جائیں بلکہ ڈرامے، فلمیں اور ویڈیو کلپس بھی بنائے جائیں۔ تقاریر کی نسبت ان کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ بڑی بڑی مارکیٹوں کے اندر معمولی اور چھوٹی دکانیں بھی اچھی خاصی کمائی کرتی ہیں۔ تاجر تنظیموں کو اعتماد میں لے کر تمام دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کو تعریفی سرٹیفکیٹس دیئے جائیں۔ انہیں خصوصی مراعات دینے کی بھرپور تشہیر کی جائے۔ سب سے اہم کام یہ کیا جائے کہ زبانی خرید و فروخت کے عمل کو روکا جائے۔ ہر دکان دار گاہک کو پکی رسید جاری کرے۔ بڑی مارکیٹوں کے داخلی و خارجی دروازوں پر چیکنگ کا نظام ہونا چاہیے کہ بغیر پکی رسید کے کوئی سامان مارکیٹ سے باہر نہ جائے۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے دکان داروں کو فائلر بنایا جائے۔ لیکن ان سب اقدامات کے ساتھ حکومت کو عوام کے ٹیکسز سے اکٹھی کی گئی رقم کو خرچ کرنے پر بھی

Comments (0)
Add Comment