وزیراعلیٰ پنجاب کی انٹی انکروچمنٹ مہم

ملک سلمان maliksalman2008@gmail.com

وزیراعلیٰ پنجاب کی انٹی انکروچمنٹ مہم کو سول سوسائٹی کی طرف سے بہت زیادہ سراہا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے تجاوزات کے خاتمہ کا حکم دے کر کمال کردیا، یہ الفاظ پنجاب میں رہنے والے ہر ذمہ دار شہری کے ہوتے ہیں لیکن تعریف کرنے والے کا اگلا سوال بھی ساتھ ہی ہوتا ہے کہ ہمارے علاقے میں انٹی انکروچمنٹ آپریشن کب سٹارٹ ہوگا۔
جہاں تک صوبائی دارلحکومت لاہور کی بات ہے سوائے ڈپٹی کمشنر لاہور کے کوئی بھی تجاوزات ختم نہیں کرنا چاہتا۔ گارڈن ٹاؤن، ہال روڈ، انارکلی, شاہ عالم مارکیٹ، لاہور صدر، ٹاؤن شپ، نشتر ٹاؤن اور ماڈل ٹاؤن کا علاقہ تجاوزات کی بدترین شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ صوبائی دارالحکومت کو رول ماڈل ہونا چاہئے لیکن لاہور کی خوبصورتی کو تجاوزات مافیا کی سرپرستی کرنے والے ٹریفک وارڈن، اسسٹنٹ کمشنرز، میونسپل کارپوریشن اور ایل ڈی اے نے بدصورتی میں بدل دیا ہے۔ بیچ سڑک کرسیاں اور ٹیبل لگا کر ریسٹورنٹ چل رہے ہیں۔
لاہور میں تجاوزات کے خاتمے میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ میونسپل کارپوریشن ہے جو اختیارات تو چاہتی ہے لیکن تجاوزات ختم کرنے کیلئے نہیں بلکہ تجاوزات کو ہٹانے میں تاخیری حربے اپنانے کیلئے، خود سے تجاوزات کا خاتمہ تو درکنار متعدد بار شکایات کے باوجود ایم سی ایل کی طرف سے کاروائی نہیں کی جارہی۔ اسسٹنٹ کمشنر کا عملہ کہتا ہے کہ میونسپل کارپوریشن والوں کو شکایت کریں ایم سی ایل والے کہتے ہیں کہ ایل ڈی اے کا ایریا ہے جبکہ ایل ڈی اے والے پانچ مہینے سے یہی کہہ رہے ہیں کہ ابھی آپ کے علاقہ کی باری نہیں آئی۔
ایسی ہی صورت حال دیگر شہروں میں ہے جہاں ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔
بیشتر شہروں میں ایک دفعہ کے فوٹو سیشن کے بعد تجاوزات پھر سے واپس آچکی ہیں۔
عوامی کو “رولر کوسٹر” کی طرح ایک دفتر سے دوسرے دفتر کا راستہ دکھانے کی بجائے انتظامی افسران اور ادارے اپنے فرائص کی ادائیگی کیوں نہیں کرتے۔
پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے افسران کے کو نئے ویگو ڈالے مل چکے ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ وہ کام کب سٹارٹ کریں گے؟
انتہائی آسان سا فارمولہ ہے کہ ہر علاقے کا پٹواری، نائب تحصیلدار، تحصیلدار اور اسسٹنٹ کمشنر، اسی طرح ضلع کونسل اور ٹاؤن ہال کے افسران اور ایل ڈے کے سرکل افسران اپنے اپنے علاقہ میں کمرشل اور رہائشی علاقوں میں ناجائز قبضہ کرکے تعمیر کی گئی عارضی اور پختہ تعمیرات کی نشان دہی کریں اور قابضین کو نوٹس بھیجیں کہ تین دن میں خود سے غیر قانونی قبضہ کی گئی جگہ مسمار /خالی کردیں، حکم عدولی پر سرکاری مشینری حرکت میں آئے گی اور غیر قانونی تعمیرات کو کرینوں سے مسمار کیا جائے گا، اس کاروائی میں ایکسٹرا توڑ پھوڑ کی تمام تر زمہ داری دکان و مکان مالک کی ہوگی۔ سرکاری مشینری کے اخراجات بھی جرمانے کی صورت قابضین سے وصول کیے جائیں۔ عارضی اور پختہ تعمیرات کی طرح غیر قانونی پارکنگ بھی سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کے مترداف ہے۔ لاہور سمیت پنجاب بھر میں گاڑیوں کے شورومز اور رپئیرنگ ورکشاپ، حتیٰ کہ سیمنٹ، بجری، اینٹوں اور دیگر کنسٹرکشن کا سامان بھی سرکاری سڑک پر رکھ کر بیچا جا رہا ہے۔
انتظامی افسران کے تاخیری حربوں کی وجہ سے قانون کا ڈر ختم ہوچکا ہے چھٹا مہینہ ہے اور ابھی تک پنجاب بھر میں بامشکل 20فیصد تجاوزات کا خاتمہ ممکن ہوسکا ہے۔ ہماری بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین جس قدر کرپٹ اور قانون شکن ہوچکے تھے ان سے بیس فیصد تجاوزات کا خاتمہ کروا لینا بھی وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کا مشن امپاسبل کو پاسیبل کرنے کے مترادف ہے۔ جتنے بھی حکمران آئے وہ تجاوزات کے اصل بینیفشریز پارلیمنٹیرین اور بیوروکریسی کے سامنے بے بس ہوکر ہار مان جاتے تھے۔ لیکن ماضی کی تمام حکومتوں کے برعکس سٹیٹ لینڈ کی حفاظت کا جو بیڑا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اٹھایا ہے اس کیلئے پنجاب کا ہر فرد وزیراعلیٰ کے ساتھ ہے۔
تجاوزات کی کمائی کھانے والے چند سیاستدان اور سرکاری ملازم پورا زور لگا رہے ہیں کہ انکی حرام کمائی کا ذریعہ بند نہ ہو لیکن میڈم وزیراعلیٰ آپ نے ثابت قدم اور مضبوط رہنا ہے انشاء اللہ آپ کا یہ کارنامہ تاریخ کا روشن باب ہوگا۔
وزیراعلیٰ مریم نواز شریف ابھی تک پنجاب سے آٹھ ہزار ارب کی سرکاری زمینوں کو واگزار کروا چکی ہیں۔ پنجاب کی تاریخ کا پہلا موقع ہے جب سرکاری زمینوں کی قبضہ مافیا سے واپسی ہو رہی ہے نہ صرف پنجاب بلکہ پنجاب میں موجود وفاق اور کشمیر افئیرز کی قیمتی زمینوں کو بھی واگزار کروایا گیا ہے۔ مریم نواز آپ نے تجاوزات مافیا کے زیر قبضہ چالیس ہزار ارب کی سرکاری زمینوں کو واپس حکومتی تحویل میں لینا ہے۔
ٹریفک پولیس غیرقانونی پارکنگ سٹینڈ کی سرپرستی کرتی ہے چاہے عوام راستوں کے بندش سے خوار ہوجائے ٹریفک پولیس کو اپنی ریگولر کمائی کے سوا کسی سے کوئی غرض نہیں۔ سڑک سے تجاوزات ہٹانا صرف ڈی سی کا کام نہیں بلکہ ناجائز پارکنگ اور مختلف کاروباری بورڈ لگا کر سڑکوں اور گلیوں کو بند کرنے پر ٹریفک پولیس کو بھی کاروائی کرنی چاہئے۔
رکشے اور ریڑیاں بیچ سڑک راستہ روکے کاروبار کر رہے ہیں اور انکو قانون کا ذرا ڈر نہیں کیونکہ انکو پتا ہے کہ قانون کی قیمت وہ میونسپل افسران اور ٹریفک پولیس کو نقد دیتے ہیں۔
تجاوزات مافیا کے ساتھ ساتھ تجاوزات کی سرپرستی کرنے افسران کے خلاف قانونی کاروائی بھی ناگزیر ہے۔ تجاوزات لگانے اور لگوانے والے دونوں کو جیل بھیجا جائے تاکہ قانون کا ڈر اور سٹیٹ کی رٹ بحال ہو۔
تجاوزات کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ صرف ایک دفعہ کے فوٹو سیشن تک محدود نہ رہا جائے بلکہ اس کا فالو اپ بھی لیں۔ گھروں کے باہر سڑک کی زمین پر قبضہ کرکے بنائی گئی نرسریاں، ایکسٹرا ریمپ اور نوپارکنگ کے نام پر مین شاہراہ اور گلیوں بازاروں میں پتھر رکھ کر ڈیرے اور کاروباری بورڈ لگا کر سڑک پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کاروائی ہونی چاہئے۔

Comments (0)
Add Comment