مشہور کہاوت ہے کہ جس گھر میں بیری ہو وہاں پتھر تو ضرور آتے ہیں۔یہ فقرہ عموما” تو ہر اس گھر کے لیے بولا جاتا ہے جس گھر میں کوئی بھی پھل دار درخت لگا ہو کونکہ بچے درخت پر لگے پھل کبھی برداشت نہیں کرتے تھے اور پتھر مار کر توڑنا چاہتے تھے ۔خصوصا” یہ اس وقت بھی بولتے ہیں جب لڑکی شادی کے لیے پیام جگہ جگہ سے آئیں ۔ایک زمانہ تھا جب گھر کچے ہوتے تھے اور ہمارے دل مضبوط اور بڑے تو ہر گھر میں ایک یا دو پھل دار درخت ضرور ہوتے تھے ۔بیری ، شہتوت ،لسوڑہ ،امرود ،آم ،جامن ،انار ،انجیر یا پھر کچنار جو ایک جانب تو اپنے پتوں اور پھولوں کی باعث ماحول کی خوبصورتی کا سبب بنتے تھے تو دوسر ی جانب ان پر لگنے والے پھل دعوت عام ہوا کرتے تھے تیسری جانب یہ پرندوں کو گھونسلے ،خوراک اور چہچہانے کو سبزشاخیں فراہم کرتے تھے ۔بچوں کی نفسیات یہی ہے کہ چوری اور پتھر سے توڑا ہوا پھل ہمیشہ زیادہ لذت دار ہوتا ہے ۔یہی وجہ تھی کہ چلچلاتی گرمیوں میں بچوں کی ٹولیا ں یہ پتھر آزمائی ضرور کرتی تھیں ۔گو گھر والے ان بچوں کی اس حرکت سے سخت نالاں دکھائی دیتے تھے اگر کوئی بچہ ہاتھ آجاتا تو اس کی خاطر مدارت بھی ہوتی تھی ۔اقبال پارک میں لگے امرود توڑتے ہوۓ کئی بچے مالی کے ہتھے چڑھ جاتے تو وہ عجیب عجیب سزائیں دیتا مگر بچے بھلا کب باز آتے تھے ۔گرمیوں کی شدت کے باوجود گھروں میں بیٹھنا ان کے لیے کسی قید تنہائی سے کم نہ ہوتا تھا وہ یا تو نہانے کے لیے نہروں کا رخ کرتے یا پھر ان درختوں پر لگے پھلوں کی شامت آجاتی تھی ۔ہمارے دوست سعید چشتی مرحوم کے گھر ایک بہت شاندار بیری کا درخت جب پھلوں سے لدھا ہو ہوتا تھا تو وہ خود ہی پکے ہوۓ بڑے بڑے بیر سیزن میں ایک دو مرتبہ ہمیں بھجوا دیتا تھا لیکن بھلا بغیر پتھر مارۓ بیر کھانے کا سواد کب نصیب ہوتا ہے ؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ بیر کو درخت پر ہی پکنے کا موقعہ ملتا ہو کچے ہی بیر بچوں کے پتھروں کی زد میں آجاتے تھے کچھ پرندے کتر جاتے تھے باقی محلے میں بٹ جاتے تھے ۔۔زمانہ بدل گیا وقت بدل گیا سوچ بدل گئی ضرورتیں بدل گئیں اور چند فٹ جگہ پر موجود درخت کو بھی تعمیرات کے لیے بڑی بےدردی سے کاٹ دیا گیا ۔اب نہ ہریالی رہی نہ پھل اور پھول رہے اور نہ ہی پتھر مارنے والے وہ شرارتی بچے ہی دکھائی دیتے ہیں اور نہ وہ رنگ برنگ خوش آواز پرندۓ ،تتلیاں اور بھونگے ہی دکھائی دیتے ہیں ۔گذشتہ روز ایک گھر میں لگے بیر کے درخت کے قریب جانے کا اتفاق ہوا ۔عجیب نظارہ تھا بیر پک کر ا ور سوکھ کر زمین پر بکھرے پڑے تھے ۔ان بیروں کو چننے والا کھانے والا کوئی نہیں ہے ۔درخت بھی اداس ہیں کہ وہ پتھر مارنے والے بچے کہاں چلے گئے ؟ چونچوں سے آدھے کتر کتر کر پھینکنے والے پرندۓ کیا ہوۓ ؟ وہ کودتی گلہریاں ،تتلیاں ،بھنبھناتی شہد کی مکھیاں وہ عجیب عجیب بھنورۓ اب کیوں نہیں دکھائی دیتے ؟ ان کی چہچہانے کی خوبصورت آوازیں بند کیوں ہو گئی ہیں ؟ یہ چند درخت جو انسانوں کی ضرورت سے بچ گئے ہیں اداس اور رنجیدہ کھڑے آج بھی ان قدردان شرارتی بچوں اور پرندوں کے منتظر ہیں اور قریب سے گزرنے والے بچوں کو آواز دے کر بلا رہے ہیں کہ آو بچوں میرے بیر پک چکے ہیں اپنی محبت اور خواہش کے چند پتھر میری جانب پھینکو تاکہ مجھے اپنی اہمیت کا احساس ہو سکے لیکن ان درختوں کی آواز سننے والا کوئی بچہ گلی محلے میں دکھائی نہیں دیتا ۔ کہاں چلے گئے یہ بچے اور ان بچوں کی شرارتی ٹولیاں ؟ اب تو ان بیریوں پر لگے شہد کے چھتے اور شہد کی مکھیاں بھی حیران ہیں کہ ان پر پتھر پھینکنے اور چھیڑ چھاڑ کرنے والے معصوم شرارتی بچے کہاں گم ہیں ؟ وہ انہیں کاٹنے اور پیچھا کرنے کی اپنی عادت کیسے پوری کریں ؟ آج کا بچہ کیسے جان سکتا ہے کہ پرندوں کی چونچ کا کترا ہوا پھل اور پتھر سے شہتوت کا آدھا ٹوٹا ہوا پھل اور کچا امرود کتنا لذیذ ہوتا ہے ؟ سخت دھوپ میں گلیوں میں ننگے سر اور ننگے پیر کھیلنے ،نہروں اور چھپڑوں میں نہانے کا مزا یہ کیا جانیں ؟
ان درختوں کو ان شہد کی مکھیوں ،ان تتلیوں ،ان پرندوں کو کیا پتہ کہ یہ تپتی گرم دھوپ میں بے چین پھرنے والے بچے تو کسی اور ہی دنیا میں مصروف ہوچکے ہیں وہ دنیا جو ان درختوں کے پتوں ،پھلوں اور پھولوں سے بھی زیادہ خوبصورت ،رنگین اور دلفریب ہے ۔پہلےوالدین گرمی اور سردی میں ان شرارتی بچوں کو باہر جانے سے روکتے تھے درختوں پر چڑھنے ،پھل توڑنے اور نہروں میں نہانے سے منع کرتے تھے مگر جب یہ بھلا کہاں رکتےتھے ؟ اور آج جب والدین انہیں گھروں سے کمروں سے باہر نکالنا چاہتے ہیں مگر وہ خود کو بند کمروں میں میں زیادہ خوش محسوس کرتے ہیں ۔وہ ہر روائتی تفریح کھیل اور گرانڈ سے دور اور سماجی سرگرمیوں سے آزاد ہوکرانٹرنیٹ اور موبائل کے سحر میں گرفتار ہیں ۔اب تو چند ماہ کا بچہ بھی انٹر نیٹ اور موبائل کے بغیر نہ دودھ پیتا ہے نہ کھانا کھاتا ہے اور نہ سوتا ہے ۔ماوں کی دلفریب لوریاں اسے اچھی نہیں لگتیں ۔بچوں کی پوری دنیا ایک چند انچ کی اسکرین پر سمٹ چکی ہے ۔ہر کوئی اپنے موبائل فوں ،لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پر الگ تھلگ خاموشی سے انٹرنیٹ کی دنیا میں کھویا ہوا ہے ۔سوال یہ ہے کہ انسان نے ایک نرالی ڈیجیٹل دنیا تو ایجاد کرلی مگر کیا وہ اس کے منفی اثرات کا بخوبی مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔کہتے ہیں کہ پاکستان کے تقریبا” آٹھ کروڑ افراد انٹرنیٹ کے اس دلفریب نشے میں مبتلا ہو چکے ہیں اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ان میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور بچوں کی بتائی جاتی ہے ۔اب انٹرنیٹ کوئی تفریح یا ذریعہ تعلیم نہیں رہا بلکہ یہ دنیا بھر انسانوں کی عادت اور ضرورت بنتا چلا جارہا ہے ۔اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے ناصرف باہمی رابطہ آسان اور تیز ترین بنا دیا ہے بلکہ عام آدمی کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار باآسانی کر سکے ۔نئی نئی معلومات کی ازلی خواہش کی بھوک مٹانے کے لیے اس کا تجسس بڑھتا چلا جاتا ہے ۔جس کی باعث انٹر نیٹ کے ذریعے معلومات کا سیلاب تو آگیا ہے لیکن ہم اپنی روایات اور ماحولیات کو تباہی کی جانب لے جارہے ہیں ۔ہماری جسمانی دوریاں بڑھ رہی ہیں اور ہر دن ہم نیچر سے الگ تھلگ ہوتے جارہے ہیں ۔آج کے دور میں بچے حقیقت سے دور جھوٹی کہانیوں اور موبائل کی چمکتی اسکرینوں کے سحر میں اسقدر گم ہوچکے ہیں کہ حقیقی کردار اور متاثر کن سچی کہانیاں خواب بن کر رہ گئی ہیں۔قدرت کے عطا کردہ ماحول سے دوری نے ہماری روایات اور خوبصورت زندگی کو ہم سے دور کردیا ہے ۔بند کمروں سے قدرت کے نظارۓ بھلا کب دکھائی دیتے ہیں ۔اب تو گھروں کے درختوں پر پتھروں کی بجاےؐ فیس بک اور واٹس ایپ پر پیغامات ہی آتے ہیں جو خاموشی کے لبادے میں ملبوس فرد واحد کے لیے ہوتے ہیں ۔رات رات بھر جاگنے اور صبح دم سونے کی روایت کا بڑھنا انسانی زندگی کے لیے بےحد خطرناک عمل ہوتا ہے ۔کہتے ہیں کہ جب تم سورج کی کرنوں کے نکلنے کے بعد بیدار ہوں گے تو اس کا مطلب ہے کہ تمہیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ زندگی میں روشنی کی پہلی کرن کیسے اور کب اور کہاں سے آتی ہے ؟ بند کمرۓمیں اسکرین کے قیدی آدھی رات کا پورا چاند اور اس کی ملگجی روشنی کیسے دیکھ سکیں گے اور چاندنی کی ٹھنڈک کی لذت کیسے محسوس کریں گے ؟ ایک دوسرے سے دور ہوتے ۔
معمول بن گیا ہے اب راتوں کا جاگنا
نیندیں میرے وجود کی موبائل لے گیا
بند کمروں سے نکلو ،خود کو کسی چیز یا اسکرین کے ماتحت مت کرو،یہ پوری دنیا تمہارے لیے بنائی گئی ہے تم اس دنیا کے لیے نہیں بنے ،پرندوں کی آوازیں سنو ،درختوں کی سرگوشیاں محسوس کرو ، حسین نظاروں کی پکار سنو ،قدرت کی پیدا کردہ ہر ہر موسیقی سنو ،کتابیں پڑھو ،صبح اٹھ کر سورج کی کرنوں کو محسوس کرو ،دن میں ہر ہر چیز کا رویہ دیکھو اور یہ جانو کہ تم کتنے خاص ہو ،کسی جاندار چیز کے لیے شام میں ڈوبتے سورج سے زوال کی حقیقت جانو کہ وقت کتنا کم رہ گیا ہے ،رات کی تنہائی میں چاند ستاروں کو دیکھو کہ کوئی کسی کا نہیں ہوتا ۔سب اپنے اپنے مدار میں گم ہیں ،یہ سب تمہاری توجہ کے منتظر ہیں ،محبت کرو خود سے دوسروں سے ،اپنوں سے بیگانوں سے ،سب سے بڑھ کر اس مالک کائنات سے جس نے تمہیں اشرف المخلوقات کا درجہ دے یہ بلند ی عطا فرمائی ہے ۔اس ذات سے محبت اس کا شکر ادا کرنے پوشیدہ ہے ۔ جی ہاں ! یہ حقیقت ہے کہ ہمارے گھروں میں اب پرندے اور بچوں کے پتھر نہیں آتے کیونکہ اب ہمارے گھروں میں وہ پھلوں کے درخت ہی نہیں رہے جن پر پتھر آتے تھے ۔