بچوں کے پیچیدہ طبی مسائل پر ڈاکٹر سمعیہ آفتاب کی آگاہی۔

ن و القم۔۔۔مدثر قدیر

بچپن انسانی زندگی کا نازک ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ اسی دور میں جسمانی نشوونما کے ساتھ کئی طبی پیچیدگیاں بھی جنم لیتی ہیں جن کی بروقت تشخیص اور علاج نہ صرف بچے کی جان بچا سکتے ہیں بلکہ اس کی زندگی کو نارمل بنا سکتے ہیں۔گزشتہ دنوں بچوں میں شوگر کے بڑھتے ہوئے رجحان اور ان میں ہارمونز کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل پر چلڈرن ہسپتال کے شعبہ اینڈوکرنالوجی کی چئیرپرسن، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سمعیہ آفتاب سے مفصل گفتگو ہوئی جس میں انھوں نے تفصیل سے ان مسائل کا ذکر آگاہی کے انداز میں کیا۔ انھوں نے بتایا کہ تین ایسے اہم مسائل ہیں جو پیدائشی بچوں کو درپیش ہو سکتے ہیں۔اول جینڈر کا نقص،دوئم ہارمونز کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل اور سوئم ذیابیطس یعنی ایسی شوگرجو بچے پیدائش کے موقع پر ساتھ ہی آتی ہے۔ ڈاکٹر سمعیہ آفتاب کے مطابق بچوں میں ہارمونز کی خرابی سے پیدا ہونے والے مسائل کم عمری میں شناخت نہ ہونے کی وجہ سے پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ ان مسائل کا بروقت پتہ لگانا اور علاج کرنا بچے کی مجموعی صحت، نشوونما اور ذہنی و جسمانی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ان میں سب سے پہلے تھائی رائیڈ گلینڈ کی خرابی (Hypothyroidism/Hyperthyroidism)ہے جس کی علامات میں جسمانی نشوونما کی رفتار کا کم ہونا، ذہنی سستی، یادداشت کی کمزوری، وزن میں اضافہ یا کمی، نیند کا بڑھ جانا یا کم ہو جانا شامل ہیں،اس کی تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ (TSH, T3, T4) کروائے جاتے ہیں اور مخصوص دوا (Levothyroxine) کے ذریعے علاج ممکن ہے۔اس کے بعد
Growth Hormoneکی کمی کا مسئلہ جس کی علامات میں بچے کا عمر کے حساب سے قد میں پیچھے رہ جانا، کمزور جسمانی ڈھانچہ ہوتے ہیں۔جن کا علاج گروتھ ہارمونز کے انجکشن ہوتے ہیں جو طبی ماہرین کی نگرانی میں بچے کو لگائے جاتے ہیں۔قبل از وقت بلوغت (Precocious Puberty)جس کی علامات بچیوں میں 8 سال سے پہلے اور بچوں میں 9 سال سے پہلے جنسی علامات کا ظاہر ہونا ہوتا ہے جس کا علاج ہارمون ریگولیشن دوا کے ذریعے اس عمل کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔اسی طرحپیدائشی بچوں میں جینڈر کا تعین ایک پیچیدہ معاملہ ہوتا ہے بعض اوقات بچے پیدائشی طور پر ایسے جنسی اعضاء کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جن سے ان کا واضح مرد یا عورت ہونا طے نہیں ہو پاتا۔ اس حالت کو ”Intersex” یا مبہم جنسی اعضا کہا جاتا ہے۔ یہ حالت مختلف جینیاتی یا ہارمونی وجوہات کی بنا پر پیدا ہوتی ہے، جیسے
Congenital Adrenal Hyperplasia (CAH): یہ ہارمونز کی ایک بیماری ہے جس میں بچی کے جسم میں مردانہ ہارمون زیادہ بننے لگتے ہیں اور
Androgen Insensitivity Syndrome: یہ کیفیت لڑکوں میں ہوتی ہے جب ان کے جسم کے خلیے مردانہ ہارمون کا اثر قبول نہیں کرتے۔یہ معاملہ نہایت نازک ہے اور اس کا فیصلہ جلد بازی میں نہیں کیا جانا چاہیے۔ بعض اوقات بچے کے جینیاتی ٹیسٹ (Karyotype)، ہارمون کی جانچ، اور الٹراساونڈز کے ذریعے مکمل جانچ کی جاتی ہے اوربعض صورتوں میں سرجری یا ہارمون تھراپی کی ضرورت پڑ سکتی ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ فیصلہ والدین کی مشاورت اور ماہر ڈاکٹروں کی رائے سے کیا جائے۔اسی طرح انسولین کی زیادتی یا کمی (Pancreatic Hormone Issues)یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہوتا ہے بچہ کا لبلبلہ کبھی زیادہ تو کبھی کم انسولین بناتا ہے،جبکہ. Hyperinsulinisجب بچوں کا لبلبہ ضرورت سے زیادہ انسولین بنائے جونایاب مگر نہایت خطرناک بیماری ہے جس میں بچے کے لبلبہ سے زیادہ مقدار میں انسولین خارج ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں خون میں شوگر کی مقدار خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے۔ اس کیفیت کو Congenital Hyperinsulinism بھی کہا جاتا ہے۔اس بیماری میں بچوں کو جھٹکے لگتے ہیں اور فوری طور پر ماں،باپ اسے دماغی امراض کے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں مگر ان کا شوگر لیول گھر ہی چیک کرلیاجائے تو معاملہ کی سچائی تک پہنچا جاسکتا ہے۔اس مرض کی علامات میں
بے ہوشی یا غشی کے دورے،بے چینی یا پسینہ آنا،دودھ پینے سے انکار اورجسم میں کپکپی یا کمزوری ہیں جس کی تشخیص کے لیے گلوکوز مانیٹرنگ، انسولین کی سطح، اور جینیاتی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ ابتدائی علاج میں گلوکوز فراہم کرنا اور ادویات دینا شامل ہے، جبکہ بعض سنگین کیسز میں لبلبہ کے کچھ حصے کی سرجری بھی کرنی پڑ سکتی ہے۔اس موقع پر اپنی آگاہی گفتگو میں ڈاکٹر سمعیہ آفتاب کا کہنا تھا کہ بچوں میں شوگر کی بیماری، خاص طور پر Type 1 Diabetes, ایک خودکار مدافعتی مسئلہ ہے جس میں جسم خود لبلبہ کے انسولین بنانے والے خلیوں پر حملہ کر دیتا ہے۔ اس بیماری کی علامات درج ذیل ہو سکتی ہیں کثرت سے پیشاب آنا،حد سے زیادہ پیاس لگنا،وزن کا اچانک کم ہونااورتھکن اور کمزوری شامل ہیں اس بیاری کی تشخیص اور علاج کے لیے خون میں شکر کی مقدار (Blood Glucose)، HbA1c ٹیسٹ اور پیشاب میں شوگر کی موجودگی سے مرض کا تعین کیا جاتا ہے۔ Type 1 Diabetes کا کوئی مستقل علاج نہیں، لیکن انسولین کے باقاعدہ انجکشن، متوازن خوراک اور مناسب جسمانی سرگرمی سے یہ بچے نارمل انداز میں زندگی گزارسکتے ہیں۔وزیر اعلی پنجاب نے چھوٹے بچوں کے لیے انسولین کی فراہمی کا جو پراجیکٹ شروع کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔اس موقع پر انھوں نے وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف، وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف سمیت دیگر صاحب اقتدار سے اپیل کی کہ جب بچوں کا لبلبہ زیادہ مقدار میں انسولین خارج کرنا شروع کردے تو اس کا علاج ڈائی زو اکسائیڈ نامی گولی ہے جو ملک میں نہیں بنائی جاتی اور اس کو بیرون ملک سے منگوایا جاتا ہے جس کا خرچ بہت ذیادہ ہے اس لیے اس دوائی کو پاکستان میں بنانے کے لیے ڈریپ سے اجازت لی جائے تاکہ یہ دوائی ملک میں بنے اور اس مرض میں مبتلا بچوں کو آسانی سے میسر آسکے اور ان کے مرض کی شدت ختم ہوجائے۔

Comments (0)
Add Comment