وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف اگلے مورچوں پر پہنچ گئے’ ٹینک پر چڑھ کر خطاب ، دشمن کے دانت کھٹے کرنے پر پاکستان کی تینوں مسلح افواج کو ایک بار پھر خراج تحسین اور پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا پچھلے حساب چکا دیے معرکہ دس مئی میں پاک فوج نے بھارت سے 1971 کا بدلہ لے لیا، تاریخ ہمیشہ اس بات کو یاد رکھے گی کہ کس طرح چند گھنٹوں میں پاکستان کے محافظوں نے بے مثال درستی اور عزم کے ساتھ بھارت کی بلا اشتعال جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، اب بھات پر منحصر کہ آئندہ کس طرح کا ماحول چاہتا ہے ۔ ہم ایک پرامن قوم ہیں امن کے خواہاں تاہم اگر بھارت نے ہماری اس خواہش کو کمزوری سمجھ کر چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی تو ہاتھ پاوں توڑ دیے جائیں گے
مزید کہا کہ ہماری عسکری قیادت اور بہادر سپو ت قوم کا فخر ہیں، قوم کے غیر متزلزل عزم سے مضبوط پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے مادر وطن کا بہادری سے دفاع کیا اور دشمن کی بزدلانہ جارحیت کو فیصلہ کن ضرب لگائی، افواج پاکستان کو دشمن کے خلاف عظیم کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بہادرافواج نے وطن عزیز اور 24 کروڑ عوام کے وقارمیں اضافہ کیا، انہوں نے اپنی بہادری سے قوم کی عزت افزائی کی، یہ کامیابی رہتی دنیا تک تاریخ کے سنہری باب کا حصہ بن گئی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے بہادر سپتوں نے دشمن کو ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھنے دیا اور اللہ کےفضل سےاپنےکئی گنابڑے دشمن کےگھمنڈ اور غرور کو خاک میں ملا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے شاہینوں نے دشمن کو جو ضرب لگائی یہ معمولی کارنامہ نہیں ہے، اب پاکستان کو روایتی جنگ میں پیچھے چھوڑنے کے بھارتی دعوے خاک میں مل گئے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ آج دنیا پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کی معترف ہے، پاکستان امن کا داعی ہے، امن چاہتا ہے مگر ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، اگر بھارت نے دوبارہ جارحیت کی تو ایسا جواب دیں گے کہ سوچا بھی نہیں ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف کا سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس کے ساتھ کا ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا ہے، جس میں جنوبی ایشیا کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
میڈیا کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے کشیدگی کم کرنے پر سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی کاوشوں کو سراہا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ خطے کے وسیع تر مفاد میں جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا، پاکستان اپنی خودمختاری ،علاقائی سالمیت کاہر قیمت دفاع کرے گا۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بھارتی جارحیت کا عالمی برادری کو نوٹس لینا چاہیے، کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہو۔
پاک – بھارت حالیہ جھڑپ نے کشمیر ایشو کو دوبارہ زندہ کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب عالمی قیادت بھی خطے میں پائیدار قیام امن کیلیے کشمیر کے معاملے کا پرامن حل تلاش کرنے پر زور دے رہی ہے ۔
یادرہے امریکی صدر نےحالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کرانے میں اہم کردار ادا کیا، اور تجارت کی طاقت سے دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لایا۔
بھارتی اپوزیشن جماعتیں نے سوال اٹھارہی ہیں کہ کیا بھارت نے تیسری پارٹی کی ثالثی کو قبول کرلیا؟
کانگریس کے جے رام رمیش نے کہا کہ مودی کی خاموشی سوالیہ نشان ہے: “کیا ہم نے کسی ‘نیوٹرل مقام’ پر مذاکرات کی منظوری دے دی؟”
رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا: “اگر ثالثی قبول نہیں کی گئی تو وزیر اعظم اس دعوے کی کھل کر تردید کیوں نہیں کر رہے؟”
کمیونسٹ پارٹی نے خصوصی پارلیمانی اجلاس کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کا اعلان بھارتی مؤقف کو کمزور کرتا ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی نے کہا: “ہم نے ہمیشہ شملہ معاہدے کے تحت تیسری پارٹی کی مداخلت کی مخالفت کی ہے، اب کیوں خاموشی ہے؟”
یہ خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ انڈیا کشمیر کے تنازعے میں بیرونی مداخلت سے گریزاں ہے، جو 1947 کی تقسیم کے بعد سے اس کا مؤقف رہا ہے۔
ٹرمپ نے تاہم اس کشیدگی میں کمی کا سہرا خود لیتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا کہ امریکہ نے امن قائم کرنے میں مدد کی اور وہ ’دونوں ممالک کے ساتھ کام کریں گے تاکہ کشمیر کے مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔‘
پاکستان نے ان تبصروں کا خیرمقدم کیا اور ٹرمپ کے ’تعمیری کردار‘ کی تعریف کی۔
انڈیا ٹو ڈے کے مطابق پاکستانی حکومت نے کہا: ’ہم صدر ٹرمپ کی جموں و کشمیر کے تنازعے کے حل کے لیے حمایت کو بھی سراہتے ہیں۔‘
انڈیا نے اس کے برعکس، عوامی طور پر خاموشی اختیار کی اور یہ مؤقف دہرایا کہ کشمیر ایک داخلی معاملہ ہے۔
ریٹائرڈ انڈین فوجی افسر میجر جنرل رمیشور رائے نے ٹرمپ کی پیشکش کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر متعلقہ اور دخل اندازی ہے۔
انہوں نے دی انڈپینڈٹ کو بتایا: ’جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے، اس کا کوئی مطلب نہیں ہے کیونکہ ہمارا واضح مؤقف یہ ہے کہ کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مسئلہ ہے اور دنیا کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘
انہوں نے بظاہر شملہ معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’ٹرمپ کا اس معاملے سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے، اور ہم کسی بھی وقت اسے قبول نہیں کریں گے… ہم نے کبھی بھی جموں و کشمیر کے مسئلے پر کسی تیسرے فریق کی مداخلت نہ مانگی ہے اور نہ خوش آمدید کہا ہے۔‘
اس معاہدے میں انڈیا کا مؤقف یہ تھا کہ کشمیر پر کوئی بھی بات چیت اگر ہو تو وہ صرف دو طرفہ بنیاد پر ہو۔
انڈین حکام نے دوبارہ کہا کہ وہ کشمیر کو غیر ملکی تبصرے یا ثالثی کے لیے ممنوع سمجھتے ہیں
اب کشمیر ایشو کو لیکر بھارتی عوام دوحصوں میں بٹ چکی ہے ایک حصہ تنازعے میں کسی تیسرے ملک کی ثالثی قبول کرنے کو تیار نہیں