تیسرا رخ

منشاقاضی حسبِ منشا

مجھے ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کی یہ تازہ ترین تصنیف تیسرا رخ بڑا خوبصورت حسین اور اپنی مقناطیسی کشش کے سبب دلوں میں ایک لرزش خفی پیدا کر رہا ہے ، یہ تیسرا رخ پڑھ کر مجھے ہر رخ روشن اور تابناک دکھائی دیتا ہے میں نے ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ خوبصورت عادتوں کے ایک دلفریب انسان ہیں ، ان کا دسترخوان جہاں وسیع ہے وہاں وہ اپنی ذات میں بھی بڑے عالی ظرف ہیں ، بیشمار لوگوں کے بارے میں سنتے سنتے کان پک جاتے ہیں لیکن ان کو قریب جا کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہیں ہیں جو بتائے گئے ہیں ، لیکن ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کے بارے میں بتایا گیا وہ اس سے کئی گنا اور روشن تر نکلے ، ان کے بارے میں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ

رخ روشن کا ہر پہلو روشن نکلا

میں جسے جگنو سمجھتا تھا وہ چاند نکلا

اور وہ لوگ جن کے بارے میں ہم چاند سمجھتے تھے ان کو قریب جا کر دیکھا تو

رخ روشن کا نہ کوئی پہلو روشن نکلا

میں جسے چاند سمجھتا تھا وہ جگنو نکلا

تیسرا رخ میرے زیر نظر ہے اور اس کا ھر رخ ، رخ روشن ہے ، گرانمایہ جملے ، سبق آموز اقوال ڈوگر ، محبت سے لبریز تیسرا رخ ہر گھر کی بے چینیوں کو دور کر سکتا ہے اور اطمینان افروز ماحول تخلیق کر سکتا ہے بشرطیکہ اس کا مطالعہ کیا جائے ، فیس بک پر میں جب پڑھتا تھا تو ڈائری پر نوٹ کر لیتا تھا ، ایک روز میں نے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا اور اپنا خیال ظاھر کیا کہ آپ ان اقوال کو کتابی چہرہ دے دیں تو زیادہ مناسب ہوگا ، تو آج میں بہت خوش ہوں کہ ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر صاحب نے میرے خیال کو پیکر محسوس میں ڈھال دیا ہے ، جس کے بارے میں جاوید چودری رقم طراز ہیں کہ ڈاکٹر اسلم ڈوگر کے کالموں میں لفظ کئی کئی رنگ کئی کئی معنی منعکس کرتے ہیں ۔ وہ ماہر قلعی گروں ، کرشمہ ساز پالشیئے کی طرح ٹوٹے پھوٹے ٹیڑھے میڑے لفظوں میں چمک پیدا کر دیتے ہیں وہ روز نہیں لکھتے ۔ لیکن ان کے کالم پڑھ کر محسوس ہوتا ہے وہ پچھلی دو تین صدیوں سے روز لکھ رہے ہیں ۔ انہیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ چند پیراگراف پر محیط اس تحریر کے پیچھے کچے پکے موسموں کی تپیسیا ، ریاضت اور محنت کے صحراؤں کی آبلہ پائی اور احساسات ، جذبات اور نظریات کی کئی کئی بھٹیوں کی چیخیں بھی ہیں ، شہزاد احمد ورک رقم طراز ہیں ، کہ ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں دو عشروں پر محیط رفاقت میں مجھے یہ نہیں پتہ چل سکا کہ وہ کالم نگار بڑے ہیں یا دانشور ، تعلقات عامہ کے ماہر بڑے ہیں یا پروفیسر پامسٹ بڑے ہیں ، ان کی شخصیت کے کسی ایک پہلو پر کچھ لکھنا باقی کو ناراض کرنا ہے بلکہ ان کی شخصیت پر کچھ لکھنا ہی ہوا کو مٹھیوں میں بند کرنے کے مترادف ہے کسی بھی قماش کا شخص ان کی کمپنی میں بور نہیں ہو سکتا اور ہر کسی کو ان کی کمپنی میں بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں ، وہ چہرہ جانچ کر ماضی بتا سکتے ہیں دل پڑھ کر حال اور ہاتھ دے کر مستقبل ان کا حلقہ احباب بھی وسیع ہے حلقہ عقیدت بھی وسیع اور دسترخوان بھی وسیع ۔ زندگی کو صحیح معنوں میں سمجھنا مقصود ہو تو انسان کو ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہیئے ، کیونکہ وہ زندہ دل بھی ہیں اور زندگی کی رمز کو سمجھنے والے بھی ،

ڈاکٹر عبدالقدیر ایٹمی سائنسدان کا ایک ہی جملہ اتنا گرانمایہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے لئیے بہت بڑا اعزاز ہے ، کتاب کے ہر صفحے پر لکھی ہوئی ہر سطر علمیت ، بصیرت، مستقبل پر گہری نظر اور انتھک محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

سہیل وڑائچ رقم طراز ہیں، ڈاکٹر اسلم ڈوگر ہر فن مولا ہیں علم نجوم کے ماہر ، لکھنے پڑھنے میں طاق ، انتظامی امور میں تخصیص اور عام سماجی زندگی میں سادگی اور عاجزی کے پیکر۔ ایسے ہمہ جہت لوگ پرانے زمانوں میں تو مل جاتے تھے اب خال خال ہیں ، ۔ میری دعا ہے اس زمانے میں اسلم ڈوگر کو اپنی خصوصیات پر یادگار مقام ملنا چاہیے ،۔

ڈاکٹر یونس بٹ رقم طراز ہیں ، اسلم ڈوگر صاحب کے بارے میں ، میں نے کئی برس لگا کر جو رائے بنائی ہے وہ ان کی اچھی افسری ، کالم نگاری ، مضمون نویسی، پامسٹری ، آسٹرولوجی اور اچھے اچھے لیکچر سن کر نہیں بدل سکتا وہ رائے یہ ہے کہ ان سب سے اچھے انسان ہیں ، مجیب الرحمن شامی جیسے خطابت و بلاغت کے عطاء اللہ شاہ بخاری رقم طراز ہیں ، مطالعے کے رسیا تو تھے ہی، مشاہدے سے بھی بہت کچھ سیکھا ایک دنیا دیکھی اور آنکھوں میں بٹھا لی ۔ قلم اٹھاتے ہیں تو یوں لگتا ہے دبے پاؤں چل رہے ہیں ، لوہار نہیں سنار ہیں ، ان کے ہاں بھٹی ہے نہ ھتوڑا ۔ ضرب کاری تو کیا ضرب بے کاری کے بھی قائل نہیں ۔ خیالات کے سونے پر لفظوں کے نگینے جڑتے اور کالم کا زیور بنا لیتے ہیں ، چوڑی، انگوٹھی ، پازیب، جھومر ، گلو بند ان کو بہت کچھ بنانا آتا ہے لیکن بناتے زیور ہی ہیں ،

حسن نثار دیکھئے کیا لکھتے ہیں ،

ہاتھوں میں سرکاری ملازمت کی ہتھکڑیاں

پاؤں میں اسی فولاد کی بیڑیاں

کہنے کو زیر لب لیکن اتنا لاؤڈ کہ دور سے سنائی دے اور اتنا کلیئر کہ بھینگوں کو بھی صاف دکھائی دے ۔ یہ ہے کالم نگاروں کے جمعہ بازار میں علیحدہ سا دکھائی دیتا ہوا ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر جو فرہاد جیسے تیشے اور تپیسیا سے اپنے لیئے ایک ایسی ڈگر تراش رہا ہے جو اسے کالم نگاری کی شیریں تک لے جا سکتی ہے ۔ جس دن اس کی ہتھکڑیاں کھل گئیں ، بیڑیاں ٹوٹ گئیں

Comments (0)
Add Comment