سویلین کا ملٹری ٹرائل اور اختلافی نوٹ

تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پرمشتمل سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نےمختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سویلین کے فوجی ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرلیں اور فوجی عدالتوں کو عام شہریوں کے ٹرائل کی اجازت دیدی ۔ انٹرا کورٹ اپیلیں پانچ دو کی اکثریت سے منظور کی گئی ہیں، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ ان ججز نے اپنے اختلافی نوٹ میں آئینی و قانونی حوالہ جات دیکر انٹراکورٹ کو مسترد کیا۔ آج کی تحریر میں ججز کے اختلافی نوٹ کا جائزہ لیا جائے گا کہ کن آئینی و قانونی نکات کی بناء پر سویلین کا فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔
اختلافی فیصلے کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ، 1952 ایک تادیبی قانون ہے، جس کا تعلق صرف مسلح افواج کے ممبران سے ہے جسکا مقصد ممبران کے فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنانا یا محکمے میں نظم و ضبط کو برقرار رکھا جاسکے۔ اسی طرح آئین پاکستان کے آرٹیکل 8(3)(a) کے تحت فوجی نظم و ضبط کے تحت افراد کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہوتے۔ اور اگر آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1(d) کے مطابق عام شہریوں کو آرمی ایکٹ کے تابع قرار دے دیا جائے تو پھر عام شہری آئین میں درج بنیادی حقوق سے محروم قرار پائیں گے۔ چونکہ یہ سیکشن آئین سے متصادم ہے لہذا سیکشن 2(1(d) کو آرمی ایکٹ کے حصے کے طور پر برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ اور یہ کہ آئین کا آرٹیکل 175 جو سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور قوانین کے تابع ماتحت و دیگر عدالتوں کے قیام و دائرہ اختیار کوواضح کرتا ہے۔ جبکہ آرٹیکل 175(3) میں واضح طور پر درج ہے کہ عدلیہ کو بتدریج ایگزیکٹو سے الگ کیا جائے گا اور چونکہ فوجی عدالتوں کو فوجی افسران یعنی ایگزیکٹوز ہی چلاتے ہیں۔ اسلئے آئین کے آرٹیکل 175(3) کے دائرہ کار سے باہر ہونے کی وجہ سے ایگزیکٹو (فوجی افسران) پر مشتمل فوجی عدالتیں عام شہریوں کے خلاف مقدمہ نہیں چلا سکتے۔ لہذا فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل آئین کے آرٹیکلز 2A، 9، 10، 10A، 19A، 25 اور 227(1) کی خلاف ورزی قرار پائے گا۔ معزز ججز نے اختلافی فیصلے میں آئین کے جن آرٹیکلز کا تذکرہ کیا ہے، آئیے انکا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔
آرٹیکل2A: یہ کہ ریاست پاکستان میں تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام لازمی ہوگا۔
آرٹیکل 9 : یہ کہ کسی شخص کو قانون میں درج طریقہ کار کے بغیر زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
آرٹیکل 10 : یہ کہ زیرِ حراست شخص کے لیے وکیل تک رسائی، شفاف عدالتی کاروائی، اور عدالتی نگرانی کی ضمانت دی گئی ہے۔
آرٹیکل 10A: یہ کہ ہر شخص کو منصفانہ عدالتی کاروائی کا حق حاصل ہے، جو ایک آزاد و غیرجانبدار عدالت میں ہونا چاہیے۔
آرٹیکل 19A: یہ کہ عوام کو ہر معاملے میں معلومات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ یعنی کوئی معاملہ مخفی نہیں ہونا چاہیے۔ عموما فوجی عدالتی کاروائی میڈیا یا کھلی عدالتی سماعت کے طور پر نہیں کی جاتی۔
آرٹیکل 25: یہ کہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ یعنی کسی شہری کا عام عدالتوں میں اور کسی شہری کا فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جانا چاہیے۔
آرٹیکل 227(1) : تمام قوانین اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ ہوں گے۔
ججز کے مطابق چونکہ فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کے مقدمے کی شنوائی حاضر سروس فوجی افسران کرتے ہیں لہذا فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل آئین کے آرٹیکل 245 کے ذریعے مسلح افواج کو تفویض کردہ فرائض سے تجاوز کرنا ہے۔ ایک آزاد اور غیر جانبدار فورم کے سامنے فوجی عدالتوں کی طرف سے جاری کردہ سزاکے خلاف شہریوں کو اپیل کے حق سے انکار بھی منصفانہ عدالتی کاروائی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح فوجی افسران کی زیر صدارت فوجی عدالت کے ذریعے عام شہریوں کا مقدمہ چلنا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے تسلیم شدہ معاہدوں کے ساتھ ساتھ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی میثاق 1966 اور معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، جن پر پاکستان دستخط کنندہ ہے۔
اور یہ کہ سانحہ9 مئی 2023 پر فوجی عدالتوں کی طرف سے عام شہریوں کو سنائی گئی سزائیں دائرہ اختیار سے تجاوز ہیں۔ زیر حراست ملزمان کے ساتھ زیر سماعت قیدیوں جیسا سلوک کیا جائے ۔ ان قیدیوں کے مقدمات فوجی عدالتوں کی بجائے متعلقہ اور دائرہ اختیار کی مجاز عدالتوں میں منتقل کئے جائیں۔ اور مجاز عدالتیں سماعت تیزی سے کرتے ہوئے قانون کے مطابق جلد از جلد فیصلے جاری کریں۔ ایسے افراد جو فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں کو پورا کرچکے ہوں یا فوجی عدالتوں میں الزامات سے بری ہوچکے ہوں ایسے افراد مجموعہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 169 کے تابع ” شواہد کی کمی کی بناء پر رہا قرار پائیں گے” یعنی ایسے افراد سزا یافتہ نہیں بلکہ باعزت بری قرار پائیں گے۔
سپریم کورٹ آئینی بینچ کے اختلافی فیصلہ کی رُو سے عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلائے جانا آئین و قانون، اسلامی تعلیمات اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن و دیگر بین الاقوامی معاہدوں کے برخلاف ہے۔
آئندہ تحریر میں جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی کہ سپریم کورٹ آئینی بینچ کے اکثریتی ججز نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلائے جانے کو آئین و قانون کے کن نکات کی بناء پر جائز قرار دیا ہے۔

Comments (0)
Add Comment