نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز

دشتِ امکاں بشیر احمد حبیب

ابا جی نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فلسفہ اور ایم اے انگلش کر رکھا تھا اور وہ تمام عمر درس و تدریس کے سلسلے میں اندرونِ اور بیرونِ ملک خدمات سر انجام دیتے رہے۔ علم کی جس روایت کے وہ امین تھے وہ ہمارے بڑے بھائی صاحب میں منتقل ہوئی جو بعد میں تاریخ کے استاد بنے ، مجھے یاد ہے جب وہ لکچرر کے انٹرویو کے لیے پبلک سروس کمیشن جانے لگے تو میں نے کہا جناب اپنا حلیہ درست کر کے جائیگا ، داڑھی اور سر کے بال بھی زیادہ سے زیادہ اتنے ہونے چاہئیں کہ آپ پروفیسر کی بجائے سٹوڈنٹ لگیں ، اور یہ بھی سمجھ لیں کہ شلوار قمیض کی بجائے پینٹ شرٹ پہن کر جائیں گے تو ممکن ہے سلیکشن کمیٹی آپ کو روایتی ملا کی بجائے روشن خیال مفکر تسلیم کرتے ہوئے کچھ فیور دے سکے ، رہ گئی بات سلیکشن کی تو سیٹیں صرف بتیس ہیں اور درخواستیں ہزاروں ، یہ سوائے معجزے کے ممکن نہیں ۔ انہوں نے میری بات ہنس کر ٹال دی اور اپنے اسی مخصوص انداز میں انٹر ویو دینے چلے گئے ۔

یہ نوے کی دہائی تھی اور ان دنوں پبلک سروس کمیشن میں سلیکشن کمیٹی کے چیرمین عمومآ ریٹائرڈ سیکرٹری ہوا کرتے تھے ،

اب سیکرٹری صاحب کی بدقسمتی اور بھائی صاحب کی خوش قسمتی دیکھیے ، وہ اکبر کے دینِ الہی پر سوال کر بیٹھے ۔ بھائی صاحب نے ملا عبدالقادر بدایونی کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا فارسی میں دینِ الہی کے لیے جو لفظ لکھا گیا وہ “روش” تھا ، جس کا انگلش میں ترجمہ Cult ہوا اور جس کو بعد میں اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے دینِ الہی بنا دیا گیا۔ گویا بھائی صاحب نے اکبر دی گریٹ کا ایسا دفاع کیا کہ سیکریٹری صاحب عش عش کر اٹھے ۔ وہ انٹرویو طوالت اختیار کرتا گیا ، قائد اعظم کے نظریات سے لیکر ان کی داڑھی سبھی کچھ ڈسکس ہوا ، یہاں تک کہ سیکرٹری صاحب نے یہ کمنٹس بھی دے ڈالے ، برخوردار تم انٹر ویو دینے آئے ہو یا ہمارا نالج چیک کرنے ؟
قصہ مختصر جب اخبار میں نتیجہ شائع ہوا تو ان بتیس لوگوں میں بھائی صاحب کا نام اوپر کے لوگوں میں جگمگا رہا تھا جو سلیکٹ ہوئے تھے۔

ڈاکٹر میر ہمارے جگری دوست اور کزن جن کے ساتھ سکول کالج کا دور ایسے گزرا جیسے ، بقول جگر مراد آبادی

جنوں کے سخت مراحل بھی تیری یاد کے ساتھ
حسیں حسیں نظر آ یے جواں جواں گزرے

اللہ نے ڈاکٹر میر کو ایسا دماغ عطا کیا تھا کہ اناٹومی اور فزیالوجی سے لے کر میڈیسن اور سرجری تک کے تمام مضامین ازبر کرنے کے ساتھ ساتھ ہندی فلموں کے ہر گانے کی تمام تفاصیل بھی ایسے یاد تھیں جیسے وہ آل انڈیا اردو سروس کے میزبان رہے ہوں۔ کسی بھی گانے کے نغمہ نگار ، موسیقار ، گلوکار اور فلم جیسی تفصیلات گویا ان کے دل پر نقش تھیں ، اسی طرح کرکٹ کے حوالے سے بھی باریک سے باریک معلومات اور ریکارڈز ان کو ازبر رہتے تھے ۔

میڈیکل کی پڑھائی میں یہ عالم تھا ایک دفعہ بیمار ہوئے تو لمبی چھٹی کرنا پڑی ، ادھر کالج میں سب سے مشکل یعنی CNS / سنڑل نروس سسٹم پڑھایا جارہا تھا وہ انفیکشن کی وجہ سے تقریبا تین بفتے کالج نہ جا سکے اور گھر بیٹھ کر ہی تیاری کرتے رہے ، جب Stage یعنی CNS کے حوالے سے فائنل امتحان کہ نتیجہ آیا تو ڈاکٹر صاحب نے ٹاپ کیا ۔ میں نے کہا اس بات سے تو یہ ثابت ہوا کالج جانا آپ کے لیے علم کی تنزلی کا باعث ہے ۔

جب ڈاکٹر صاحب پنجاب پبلک سروس کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تو سیکرٹری صاحب نے ڈاکٹر میر سے سوال داگ دیا کہ کیا یہ مصرع ٹھیک ہے ،

جعفر از دکن و صادق از بنگال

اب سوال چونکہ میر برادران کے حوالے سے تھا اور ڈاکٹر میر کی یاداشت بلا کی تھی انہوں نے فوراً اقبال کی پورا شعر پڑھ کر دادلی ۔

جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ آدم ، ننگ دین ، ننگ وطن

پھر بات کرکٹ پر چلی تو ڈاکٹر صاحب نے کمیشن کے چودہ طبق روشن کرا دیے ۔
کسی من چلے ممبر نے دعائے قنوت کی فرمائش کر دی ، اب ان کے وہم و گمان میں نہیں تھا ڈاکٹر صاحب ہوسٹل میں امامت کرواتے ہیں۔ پینل کا اگلا سوال تھا آج اقوام متحدہ کے حوالے سے کون سا عالمی دن منایا جا رہا ہے ، اب ڈاکٹر میر کی قسمت دیکھئے ، فورڈ کی جس ویگن پر وہ پبلک سروس کمیشن گئے تھے وہاں سات بجے کی خبروں میں وہ سن چکے تھے آج عورتوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے

سو اس طرح ڈاکٹر صاحب کی پہلی Posting الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں ہوئی ، ڈاکٹر صاحب لاہور آہے اور مجھے گلبرگ کے چائنیز ریسٹورنٹ ہانگ گانگ میں لے گئے ، کہنے لگے پہلی سیلری ملی ہے اور دوستوں میں سے پہلا حق تمہارا ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ ہمارے ساتھ والی میز پر ڈاکٹر اجمل نیازی اپنی فیملی کے ہمراہ براجمان تھے ، یہ تیس پینتیس سال پرانی یاداشت ہے مگر مجھے ابھی تک یاد ہے ڈاکٹر اجمل نیازی نے آرڈر لکھوتے ہوئے بولا تھا وہ جو میرا پسندیدہ سوپ ہے ایک تو وہ لے آ ئیں ۔ اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔

ڈاکٹر میر امریکہ چلے گئے Chest میں سپیسلائزیشن کی اور نیو جرسی کے تمام بڑے ہسپتالوں میں consultancy دینے لگے اور اپنا ذاتی کلینک بنا لیا ، بڑے بڑے گھروں میں رہنے لگے اور بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے لگے، ایک دفعہ پاکستان آئے تو پوچھا وقت کیسا چل رہا ہے ، کہنے لگے اس وقت خوشی ہوتی ہے جب امریکن ڈاکٹر complicated کیسز مجھے ریفر کرتے ہیں ۔ کہنے لگے کبھی نیو جرسی آو تو کسی بھی ٹیکسی والے سے کہنا ڈاکٹر میر کے کلینک جانا ہے وہ تمہیں میرے پاس لے آئیگا ۔ الحمدللہ

پبلک سروس کمیشن کی سلیکشن کمیٹی میں چیرمین کمیٹی ، سبجیکٹ سپیشلسٹ کے

Comments (0)
Add Comment