بعض اوقات کچھ موضوعات پر ہمارے ذہن میں جذبات کا ایک سمندر موجزن ہوتا ہے مگر دل نہیں چاہتا کچھ بولنے کو ،کچھ کہنے کو ،کچھ لکھنے کو ،بتانے اور جتانے کو یا کسی سے ہمدردی کے دو لفظ بھی بولنے کو کیونکہ ان جذبات میں اسقدر درد ہوتا ہے کہ بیان کرنے ،سوچنے اور لکھنے سے بھی دل کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔بس خاموشی کے لبادےاوڑھ کر اور فاختہ کی طرح آنکھیں بند کرکے ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ شکاری ٹل جاۓ گا اور ہم شاید لکھنے اور کہنے سے بچ جائیں گے ؟اسی لیے کہتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس کہنے کو کچھ ہے تو خاموشی جھوٹ ہے بلکہ شاید اخلاقی جرم بھی ہوتی ہے ۔کہتے ہیں کہ لوگ شاید کبھی وہ نہیں ہوتے جو ہمیں دکھائی دیتے ہیں ۔ہر انسان کے اندر کئی روپ پوشیدہ ہوتے ہیں جو موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور پھر موقع ملتے ہی اپنے خول سے باہر نکل آتے ہیں ۔کوئی سفاک اور ظالم ،کوئی دھوکے باز ،کوئی دوغلا اور منافق ،تو کوئی تلخی سے بھرا ہوا تو کوئی حرس و ہوس کا پجاری یا انسانی روپ کا لبادہ اوڑھے شیطان بھی ہوتا ہے ۔مگر انہیں میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی مہربان ،ملنسار ،ہنس مکھ ،ہمدرد ،محبت اور رحمدل ،کوئی شفقت کرنے والا بھی موجود ہوتا ہے جن کی بدولت یہ دنیا کا نظام ابھی چل رہا ہے ۔ کون کب اپنا رنگ دکھا دۓ ؟ کب ،کون اور کیسے برسوں کے تعلقات اور اپنی نیک نامی کو شیطانی عمل سے منٹوں میں ختم کردے؟ ہم کسی کو جاننے کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتے اور نہ یہ جان سکتے ہیں کہ بند دروازوں اور بلند دیواروں کے پیچھے کوئی کس کرب اور تکلیف سے گزر رہا ہے ؟
گذشتہ دنوں بہاولپور کے نواحی علاقہ باقر پور میں ایک معصوم دس سالہ بچی کےساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی اور بہیمانہ قتل کی دردناک واردات نے پورے علاقے کو لرزہ کر رکھ دیااور شاید عرش بھی کانپ اٹھا ۔ملزمان گرفتار ہوکر سامنے آۓ تو یہ اور بھی المناک بات تھی کہ وہ بچی کے بہت ہی قریبی رشتہ دار تھے۔یہ چاروں درندہ صفت ملزمان جب ایک پولیس مقابلہ میں اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے جہنم رسید ہوۓ تو علاقے بھر کے شہریوں نے ان کی موت پر سکون اور اطمینان کا سانس لےکر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سراہا جو اس بات کی غمازی ہے کہ لوگ ایسے ناسوروں اور گندگی کو دنیا اور اس دھرتی پر زندہ دیکھنا نہیں چاہتے ۔
گو یہ خبر اب نئی نہیں رہی کہ “کسی معصوم بچے یا بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی اورپھر اسے قتل کرکے لاش کسی کچرے سے ملی ہو “مگر سوال یہ ہے کہ یہ کسی کے بھی لخت جگر ہوں ہمارے دل ان ان خبروں پر کانپتے کیوں نہیں ؟ ان کی شکل میں اپنے بچے کیوں نظر نہیں آتے ؟کیا ان معمول بنتے واقعات پر ہم بے حسی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں ؟ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کے مختلف علاقوں ،قصور ،ننمانہ ،مردان ،کراچی ،لاہور اور گذشتہ دنوں بہاولپور میں ایسی درجنوں لرزہ خیز خبریں سامنے آئیں جنہوں نے ہمارۓ اخلاقی زوال کو آئینہ دکھا دیا ہے ۔کہتے ہیں کہ زینب انصاری کیس ۲۰۱۸ ء اس زوال کی سب سے بڑی چیخ تھی جس نے قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا لیکن ہم اس لمحہ احساس کو زیادہ دیر نہ سنبھال سکے ۔ساحل فاونڈیشن کی رپورٹ ۲۰۲۳ء کے مطابق پاکستان ہر روز کم ازکم آٹھ سے دس بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں ۔ان سے زیادتی کے ساٹھ فیصد مجرم وہ ہوتے ہیں جو بچوں کے قریبی عزیز یا بہت زیادہ جاننے والے ہوتے ہیں ۔جبکہ جسمانی تشدد کے واقعات کی تعداد کا تعین ہی مشکل ہے جو آے دن اسکولوں ،مدرسوں ،گھریلوں ملازمین اور چائلڈ لیبر پر کیا جاتا ہے ہمارا پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا ایسی پر تشدد اور ظالمانہ خبریوں اور ویڈیو زسے بھرا پڑا ہے ۔ایسا جنسی وجسمانی تشدد صرف جرم نہیں بلکہ اعتماد کے رشتے کا خون اور قتل ہوتا ہے ۔
تشدد اور زیادتی کے ان واقعات کی جڑوں تک جائیں تو دو بڑی ذمہ دار قوتیں سامنے آتی ہیں ۔ایک تو والدین کی غفلت ولاپروائی دوسرے معاشرے کی بےحسی اور بے رحمی ۔سوال یہ ہے کہ بچے پیدا کرکے ان کو صرف اسکول اور مدارس میں داخل کرنا یا بچیوں کو کسی کےہمساۓ یا جاننے والے کے گھر پڑھنے کے لیے بھیجنا ہی مقصود ہوتا ہے ؟ یا پھر انکے پیچھے آپکو معلومات بھی کرنی چاہیے کہ آپ نے اپنی اولاد کسی ،ذہنی معذور استاد ،مولوی ،قاری یا کام سیکھنے کے لیے کسی جابر انسان کے حوالے تو نہیں کردیاہے ۔کیا آپکی بچی کسی کے گھر جاکر پڑھنے کی بجاۓ ان کے گھر کے کام کاج اور گھر والوں کی خدمت پر معمور تو نہیں ہے ۔جہاں وہ بچی پڑھنے یا کام سیکھنے جاتی ہے اس گھر کا اخلاقی ماحول کیسا ہے کیا وہاں آپکی بچی اور اس کی عزت محفوظ ہے ؟کیونکہ یہ کم عمر اور ناسمجھ معصوم بچے اور بچیاں اپنے پر ہونے والے جسمانی ،ذہنی اور جنسی تشدد کو بتانے سے بھی ڈرتے ہیں اور پھر بار بار بلیک میل ہوتے رہتے ہیں ۔سمجھ آنے پر خود کشی تک کر لیتے ہیں اور اگر زندہ رہیں تو بھی ان کی زندگی کسی ایذیت سے کم نہیں ہوتی ۔پچھتاوۓ اور شرمندگی کا احساس پور ی زندگی ان کی کمزوری بنا رہتا ہے ۔ہماری تھوڑی سی غفلت ہمارے بچوں کو عمر بھر کا روگ لگا دیتی ہے ۔اگر والدین کو پتہ بھی چل جاۓ تو وہ اپنی بدنامی کے خوف سے چپ سادھ لیتے ہیں ۔المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسے داغدار اور بدکردار لوگوں کو خوب پہچانتا ہے جو شرافت کا لیبل سجاۓ ہم میں ہی موجود ہوتے ہیں ۔ہمارا معاشرہ لبادہ اوڑھے ایسے درندوں سے نفرت کرنے اور بے نقاب کرنے کی بجاۓ ان سے خوفزدہ رہتا ہے ۔کیونکہ ہمارے قانون کی پیچیدگیاں اور طریقہ کار وہ تیسرا عنصر ہے جو ایسےبااثر ، طاقت ور درندوں سے ٹکرانے سے ہمیں باز رکھتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بڑھتے ہوۓ عفریت سے کیسے مقابل کیا جاۓ کہ ہماری نسلیں ان جیسے درندوں سے بچ سکیں ؟
ہمیں ایسے واقعات سے بچنے اور اس برائی کے تدارک کے لیے کچھ فوری اقدامات کرنے ہوں گے ۔اسلام ہمیں اس بارۓمیں پہلے ہی بڑی واضح ہدایات فراہم کرتا ہے ۔جس پر عمل پیرا ہو کر ایسی صورتحال سے بچا جا سکتا ہےجس کے لیے ہمارے تبلیغی اداروں کا تعاون بڑا کردار ادا کرسکتا ہے اور ساتھ ساتھ وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ بچوں کو جسمانی تحفظ کی تعلیم دینا لازمی قرار دیا جانا چاہیے ۔انہیں “گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ “کو سمجھنے کی صلاحیت اور انکار کا حق اور اعتماد کی شناخت سے آگاہی دینا ہوگی ۔والدین کے لیے بھی اس بارے میں آگاہی کے پروگرام ہونا چاہیں کہ بچوں کی حرکات ،چپ ،یا بدلے رویے کو کیسے جانچا جا سکتا ہے ؟ محلہ سطح پر بچوں کے تحفظ کی کمیٹی ہو جو مشکوک افراد اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ۔ڈیجیٹل تحفظ کے لیے تربیت اور فلٹرنگ ایپس کے استعمال کو فروغ دیا جاۓ ۔ہر ضلع میں چائلڈ ہیلپ سینٹرز اور نفسیاتی بحالی مراکز قائم کئے جانے ضروری ہیں ۔عدالتی نظام میں “چائلڈ فرینڈلی کورٹس ” تیز ترین انصاف اور کڑی سزاوں کو یقینی بنایا جاۓ اور شکایت کنندہ کو مکمل تحفظ دیا جاۓ ۔ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر آواز اٹھانا ہوگی ۔ہمارے مدرسوں ،اسکولوں ،مسجد و منبر اور سوشل میڈیا سے ان گھناونے عناصر لیبل زدہ چھپے انسانیت کے دشمنوں کے خلاف ایک تحریک چلانی ہوگی اور اخلاقی تربیت کرنا ہوگی کیونکہ پورے ملک کے بچے ہمارے بچے ہیں اور بچے ہمیشہ سانجھے ہوتے ہیں ۔ہمیں بطور معاشرہ طے کرنا ہو گا کہ ہم مزید اور کتنی ہی معصوم بیٹیوں کی لاشیں اٹھائیں گے ؟ کب ہم محض خبر دیکھنے والے نہیں ردعمل دکھانے والے بن سکیں گے ؟ کیونکہ جب کوئی ایک بچہ جسمانی یا جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے تو صرف ایک فرد ،گھر ،خاندان ہی نہیں پوری کی پوری انسانیت ہی بےحرمت ہو جاتی ہے ۔فاختہ کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے یہ ظالم شکاری ٹل نہیں جاتے ہمیں اپنے بچوں اور ان کے مستقبل کی حفاظت کے لیے ایسے عناصر کے خلاف ہر سطح پر مزاحمت کا راستہ اپنانا ہوگا ورنہ ان درندہ صفت شیطانوں کا نشانہ ہم میں سے کوئی بھی بن سکتا ہے ۔