پاکستان میں سود یا ساھو کاری نظام کے مہلک معاشرتی اثرات

تحریر: محمد ندیم بھٹی

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ محض سلطنتوں، بادشاہوں اور جنگوں کی تاریخ نہیں بلکہ یہ زمین صدیوں سے ظلم، استحصال اور طبقاتی تفریق کی گواہ بھی رہی ھے۔ انہی استحصالی نظاموں میں ایک سیاہ باب “ساھو کاری نظام” کا ھے جس نے لاکھوں انسانوں کو نسل در نسل سود کی زنجیروں میں جکڑے رکھا۔ ساہو کار وہ طبقہ تھا جو غریب، مجبور اور بے سہارا لوگوں کو بظاہر “مدد” کے نام پر قرض دیتا تھا لیکن دراصل وہ انہیں ایک ایسی معاشی غلامی میں دھکیلتا تھا جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔
لفظ “ساھو کار” دراصل ہندی و سنسکرت کے الفاظ “سہو” (درست) اور “کار” (کاروباری) سے ماخوذ ھے، جس کا مطلب ایک قابلِ بھروسا مالی یا کاروباری شخص ھے۔ مگر برصغیر میں یہ لفظ وقت کے ساتھ ایسے بنیوں، مہاجنوں اور ساھوکاروں کے لیے استعمال ہونے لگا جو سود پر پیسے دے کر لوگوں کا استحصال کرتے تھے۔
یہ ساھوکار اکثر ہندو برادری سے تعلق رکھتے تھے، جنہوں نے معاشی اعتبار سے برصغیر کے دیہی علاقوں پر گہرا قبضہ قائم کر رکھا تھا۔ کسان، مزدور، چھوٹے تاجر اور یہاں تک کہ کاریگر بھی ان کے قرض کے شکنجے میں پھنسے رہتےتھے۔
مجبور ھو کر قرض کے جال میں پھنسی زندگیاں بے بسی کی تصویر پیش کرتیں تھیں۔
ساھو کاری نظام بظاہر ایک معمولی مالی لین دین کا نام لگتا ھے، لیکن اس کے اندر ایک نہ ختم ہونے والا استحصالی چکر چلتا تھا۔ ایک غریب کسان اگر بیج، کھاد یا گھر کی مرمت کے لیے قرض لیتا تو اسے بہت بلند شرح سود پر رقم دی جاتی۔ اگر وہ مقررہ وقت پر قرض ادا نہ کر پاتا ۔ جو اکثر نہیں کر پاتا تھا تو سود اصل رقم سے بھی بڑھ جاتا۔
قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں ساھوکار کسان کی زمین، گھر یا مویشی ضبط کر لیتے۔ اس طرح کسان اپنی زمین سے ہاتھ دھو بیٹھتا اور مزدور بن کر انہی ساھوکاروں کے کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور ہوتا۔ کئی مرتبہ یہ قرض نسل در نسل منتقل ہوتے اور بیٹے باپ کے قرض چکانے میں زندگی گزار دیتےتھے۔
برطانوی سامراج اور ساھو کاری نظام کے بارے میں بات کریں تو
برطانوی حکومت نے نہ صرف اس نظام کو نظر انداز کیا بلکہ بعض اوقات اس کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا۔ عدالتیں عام طور پر ساھو کاروں کے حق میں فیصلے دیتیں، کیونکہ ان کے پاس دستاویزی ثبوت، رسیدیں اور قانونی مہارت ہوتی۔ دوسری طرف کسان، مزدور اور دیہاتی ان پڑھ اور بے سہارے ہوتے، جو عدالت کی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر تھے۔
برطانوی راج کے دور میں بڑی بڑی جاگیروں، زمین داروں اور ساھوکاروں کا گٹھ جوڑ بنا۔ ان تمام طبقوں نے مل کر غریب طبقے کا استحصال کیا۔ یہی وہ نظام تھا جسے بعد میں “معاشی غلامی” کا نام بھی دیا گیاتھا۔ظلم کی انتہا۔۔۔۔۔
اس امر کے خلاف اگر بات کریں تو ڈکن کے کسانوں کی بغاوت بھی ایک مثال ھے۔
انیسویں صدی کے اواخر میں “ڈکن رائٹس” (Deccan Riots) کے نام سے مشہور کسانوں کی ایک تحریک مہاراشٹر کے علاقوں میں شروع ہوئی۔ یہ وہ کسان تھے جنہوں نے ساھوکاروں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا کیونکہ وہ خودکشی، فاقہ کشی اور ذلت سے تنگ آ چکے تھے۔ انہوں نے سا ھو کاروں کے دفاتر جلا دیئے، قرض کے کاغذات تباہ کر دیئے اور ان کے ظلم کے خلاف اجتماعی آواز اٹھائی۔
یہ بغاوت ایک سنگ میل ثابت ہوئی اور اس کے بعد برطانوی حکومت نے ساھو کاروں کی سرگرمیوں پر کچھ حد تک قابو پانے کے لیے قوانین بنائے، مگر یہ قوانین بھی محض کاغذی حد تک تھے۔
اردو ادب کی تاریخ کی
بات کریں تو اردو افسانہ، شاعری اور ڈرامے میں بھی ساھو کار کو اکثر منفی کردار کے طور پر پیش کیا گیا ھے۔ پریم چند، کرشن چندر اور منٹو جیسے ادیبوں نے اپنے افسانوں میں ساھوکار کی درندگی، سرد مہری اور ظالمانہ رویوں کو بہت حقیقی انداز میں بیان کیا۔
پریم چند کا افسانہ “کفن” ایک ایسے کسان خاندان کی کہانی ہے جو اپنی بیوی کے علاج کے لیے قرض لیتا ھے، مگر
سا ھو کار کی سخت شرائط، غربت اور بے بسی اسے مزید بربادی کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔
آزادی کے بعد کے حالات پر نظر ڈالیں تو قیام پاکستان اور بھارت کی آزادی کے بعد اگرچہ بینکاری نظام کو فروغ دیا گیا اور قرضوں کے بہتر ذرائع متعارف کروائے گئے، لیکن ساھو کاری نظام مکمل طور پر ختم نہ ہو سکا۔ آج بھی کئی دیہی علاقوں میں غیر رسمی قرض دہندہ موجود ہیں جو “پیسے دے کر” لوگوں کو سود کے جال میں پھنساتے ہیں۔
پاکستان کے بعض علاقوں میں آج بھی کسان “گندم ادھار”، “بیج ادھار”، “کھاد ادھار” کے نام پر ساہوکارانہ نظام کا شکار ہیں۔ انہیں فصل کے بعد نہ صرف اصل رقم بلکہ دوگنا سود بھی چکانا پڑتا ھے۔
اور اگر ھم بات کریں آج کال کے جدید دور کے ساھو کار کی تو آج کے دور میں ساھو کار صرف گاؤں کے بانیے تک محدود نہیں رہے بلکہ بینکنگ، مائیکروفنانس اور غیر رسمی مالیاتی اداروں کی صورت میں نئے ساھو کار پیدا ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ان کے طریقے کچھ مہذب ہیں، لیکن اصولاً یہ بھی سود پر قرض دے کر لوگوں کو مقروض بنا رھے ہیں۔ ان میں سے بعض ادارے غریب لوگوں کو آسان قرض کے نام پر بظاہر سہولت دیتے ہیں لیکن بعد میں اس پر بھاری سود وصول کرتے ہیں۔ اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ھمیں ہر گی اور مارکیٹ میں سود پر قرضہ دینے والے مل جائیں گے جو باقاعدہ طور پر اپنے علاقے کی پولیس کو رشوت
دیکر ہی نظام جاری رکھنے ھوئے ہیں۔ان میں اکثر مارکیٹوں کے صدور اور چئیرمین مشترکہ طور پر یہ نظام چلا کر گھٹیا تر ین
نظام کو چلا رھے ہیں۔ اس میں میں اسلام کا مؤقف بیان کروں تو قرآن میں ھے کی جس نے سود کا لین دین کیا اس نے اللہ پاک کے احکامات کی حکم عدولی کی۔اسلامی تعلیمات کے مطابق سود دینا سخت گناہ ہیں۔ قرآن پاک میں

Comments (0)
Add Comment