3 مئی کو نویں قومی اہل قلم کانفرنس 2025ء برائے ادب اطفال کا انعقاد دوسری بار ایشیاء کے سب سے بڑے ادارے فاؤنٹین ہاؤس لاہور میں ہوا۔اس کانفرنس کا اہتمام چیئرمین اکادمی ادبیات اطفال شعیب مرزا صاحب بچوں کے ادیبوں اور مصنفین کی پذیرائی کے لئے کرتے ہیں۔ کانفرنس میں ملک بھر سے لکھاریوں، ادباء، شعراء کرام اور علمی و ادبی شخصیات ایک بڑی تعداد میں شریک ہوتی ہیں۔ اور کانفرنس میں منتخب شریک ہونے والے ادباء اور مصنفین کو سماجی و ادبی نمایاں خدمات پر ایوارڈز،تحائف اور سرٹیفکیٹس دئیے جاتے ہیں۔ فاؤنٹین ہاؤس لاہور کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سید عمران مرتضٰی کا یہ عمل قابل ستائش ہے۔ کہ انہوں نے پروفیسر ڈاکٹر رشید چودھری آڈیٹوریم میں دوسری مرتبہ اہل قلم کی مجلس سجا کر اہل قلم کو یہ موقع فراہم کیا۔ کہ وہ فاؤنٹین ہاؤس کی تاریخ اور اس کے اغراض و مقاصد کو نمایاں کر سکیں۔ قومی اہل قلم کانفرنس میں بچوں پر لکھی جانے والی کتابوں کے بہترین مصنفین کو حسب روایت ایوارڈز کیش پرائز اور قیمتی تحائف سے نوازا گیا۔ ایک روزہ یہ کانفرنس تین سیشن پر مشتمل تھی۔ پہلے سیشن کے آغاز سے قبل کانفرنس میں شریک شرکاء کو فاؤنٹین ہاؤس لاہور کی انتظامیہ کی جانب سے معلوماتی وزٹ کروایا گیا۔معاشرے میں بڑھتے ہوئے ذہنی امراض ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ہر دس افراد میں سے ایک فرد تو ضرور ذہنی کسی نہ کسی مرض کا شکار ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ذہنی امراض کے اسباب ہر انسان کے دماغ میں کسی حد تک موجود ہوتے ہیں۔جن پر یہ اسباب مختلف وجوہات کی بنا پر غالب آجاتے ہیں۔اور وہ اس مرض سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔فاؤنٹین ہاؤس ایسے ہی ذہنی مریضوں کا گھر ہے۔جو کسی وجوہات کی بنا پر ذہنی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔اور فاؤنٹین ہاؤس میں ایسے مریضوں کو جہاں روزمرہ زندگی کی تمام سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔وہیں یہ ادارہ انہیں علاج کے ذریعے معاشرہ کا نارمل انسان بنانے میں مصروف عمل ہے ۔اب تک ہزاروں کی تعداد میں ذہنی مریض صحت یاب ہو کر فاؤنٹین ہاؤس سے رخصت ہو چکے ہیں۔ او پی ڈی میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں مریض اپنا معائنہ کروانے آتے ہیں۔ فاؤنٹین ہاؤس میں رہنے والے ذہنی مریض جن میں خواتین، مرد، بچے اور بچیاں شامل ہیں۔ انہیں دیکھ کر دل رنجیدہ ہو گیا۔ کہ یہ معاشرے کے ایسے کردار ہیں جن کی اپنی الگ الگ کہانی ہے۔ اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ان کرداروں کو خاوند، جوان بیٹے، بیٹیاں اور بہن، بھائی موجود ہونے کے باوجود تنہا کر دیا گیا ہے۔ اسی فیصد سے زائد یہاں ایسے ذہنی معذور مریض ہیں۔ جنہیں ان کے گھر والے یہاں چھوڑ تو گئے۔ لیکن دوبارہ پلٹ کر ان کی خبر نہیں لی۔ یہ اس بے حس معاشرے کا المیہ ہے جو ذہنی مریضوں کے علاج کے لئے بنے فاؤنٹین ہاؤس کو اولڈ ہوم میں تبدیل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ فاؤنٹین ہاؤس لاہور 1971ء میں پروفیسر رشید چودھری اور ان کے احباب نے قائم کیا۔ فاؤنٹین ہاؤس اس دیدہ زیب وسیع و عریض قدیم عمارت میں اس وقت سینکڑوں ذہنی مریض رہائش پذیر ہیں۔فاؤنٹین ہاؤس ایک ایسا مکمل ادارہ ہے۔جہاں ان مریضوں کو وہ تمام تر سیولیات سے آراستہ کیا جاتا ہے۔جو انہیں علاج کے ذریعے معاشرے کا بہترین اور باوقار انسان بنانے میں بھی مددگار یے۔ادارہ میں ہارون رشید ووکیشنل اینڈ رہیبلیٹیشن سنڑ یے۔جہاں 18 سال سے زائد عمر کے ذہنی مریض بچوں کو ووکیشنل پیشہ وارانہ پروگرامز کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ان ڈور طبی سہولیات موجود ہیں۔ذہنی مریض بچوں کی تشخیص اور علاج گاہ کا بہترین ادارہ ہے۔فاؤنٹین ہاؤس میں ذہنی مریضوں کی بحالی پر مشتمل میل اور فی میل بلاک بنائے گئے ہیں۔اور فاؤنٹین ہاؤس کے زیر انتظام لاہور،سرگودھا اور فاروق آباد میں میں موجود ہیں۔اور ان بلاکز میں تین سو مریضوں کی ذہنی بحالی کے لئے ادارہ کی ٹیم مصروف عمل ہے۔فاؤنٹین ہاؤس 1963ء سے ایک رجسٹرڈ ادارہ یے۔اور اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی معاشرے میں بحالی کے فرائض انجام دے چکا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اخوت فاونڈیشن کے بانی ہے۔اپنی کتاب “چار آدمی” میں لکھتے ہیں۔گنگا رام، رشید چودھری اور معراج خالد تینوں کے تین معمولی کسانوں کے بیٹے تھے ۔لائل پور، ہوشیار پور، لاہور اور ماجھے کے نواحی علاقوں میں پلے بڑھے نام پیدا کیا۔ محنت، دیانت، انکسار کی خوبیاں پروردگار نے انہیں بخشی تھیں لیکن کسے خبر تھی کہ قدرت نے کیسے کیسے، کیا کیا کام ان سے لینے ہیں۔ ایک انجینئر، ایک ڈاکٹر اور ایک سیاست دان بیوہ عورتوں کا آشرم جو گنگا رام نے بنایا اور ایک نیک دل وزیراعلیٰ کے حکم پر علاج گاہ میں تبدیل ہو گیا۔ نیکی روپ بدل بھی لے تو اس کی خوشبو کم نہیں ہوتی، اس کا جمال دھندلاتا نہیں، اس کی چمک خیرہ کئے رکھتی ہے۔ جب بھی کل کے اس ہندو بیوہ گھر اور آج کے فاؤنٹین ہاؤس کی خوبصورت عمارت میں داخل ہوتا ہوں۔ مریضوں سے ملتا ہوں تو یہ تینوں لوگ مجھے یاد آتے ہیں۔ اس عمارت کی ہر اینٹ ان کا نام لیتی ہے گفتگو زبان سے تو نہیں ہوتی خاموشی بھی تو گفتگو ہے۔ اقبال نے کہا تھا۔۔۔
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی
فاؤنٹین ہاؤس اب لاہور، فاروق آباد ( شیخوپورہ) اور سرگودہا کے اضلاع میں اپنی خدمت کا دائرہ وسیع کر چکا ہے۔ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال، ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے خدمتگار اس ادارے کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں۔ فاؤنٹین ہاؤس کا سالانہ خرچ تقریبا پندرہ کروڑ روپے تک ہے۔ لیکن حکومت اس کار خیر کے ادارے کو بیس پچیس لاکھ روپے ادا کرتی ہے۔ جو اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کے مترادف ہے۔ باقی کروڑوں روپے عام آدمی سے لے کر صاحب ثروت درد مند افراد ادا کرتے ہیں۔ جب ہمیں فاؤنٹین ہاؤس کی عمارت کا وزٹ کروایا گیا۔ تو وہاں پر موجود مرد و خواتین، بچے بچیاں ذہنی عارضہ میں مبتلا ہماری طرف حسرت سے دیکھ رہی تھیں۔ شاید ان کا خیال تھا کہ ہم ان سے