*آپریشن سندور –دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے

شاہد نسیم چوہدری    ٹارگٹ 0300-6668477

کیا آپ نے کبھی ایسی شادی دیکھی ہے جس میں دلہن کی مانگ میں سندور بھرنے سے پہلے ہی دولہن بیوہ ہو جائے؟ جی ہاں! نہ برات چلی، نہ ڈھول بجا، نہ شادی کا کارڈ بٹا، اور نہ ہی منہ دکھائی کی رسم ہوئی،نہ ہی سہاگ رات۔۔۔ بات ہو رہی ہے بھارت کے اُس نادر “آپریشن سندور” کی، جو شاید ان کے دفاعی دماغوں میں تو سہاگ رات کی حسین تعبیر تھا، مگر زمینی حقیقت میں وہ چپل گھسی دلہن ثابت ہوئی جس کو سندور لگانے اور منگل سوتر پہننانے سے پہلے ہی ماتم شروع ہو گیا۔

اس آپریشن کا نام “سندور” رکھا گیا، جیسے کوئی بالی وڈ فلم ہو – “آپریشن سندور: انتقام کا رنگ”۔ بھارتی میڈیا نے تو شروع میں ایسا رنگ جمایا جیسے مودی جی خود سرخ جوڑے میں، کنٹھی پہنے، لال گجرا سونگھتے ہوئے پاک سرزمین پر ڈی جے بجوانے آ رہے ہوں۔ نیوز رومز میں صحافی نہیں، گویا سہیلیاں بیٹھی تھیں جو دلہن کے ہاتھوں پر مہندی لگاتے ہوئے چہچہا رہی تھیں کہ “بھابھی اب تو سہاگ رات قریب ہے!”

لیکن پاکستان نے جو رافیل طیارے ان کی “باراتی پرواز” میں گرا دیے، وہ گویا دلہن کے مہندی رچے ہاتھوں سے چوڑیاں چھنکنے سے پہلے ہی ٹوٹ گئیں۔ ابھی تو سندور کی ڈبی کھلی بھی نہ تھی کہ ماتم شروع ہو گیا۔ بھارتی فضائیہ نے رافیل طیاروں کو ایسے دلہے کی طرح بھیجا جو پہلی ہی رات حکیم کی دی ہوئی دوائی گم ہو جانے پر دلہن چھوڑ کر بھاگ جائے۔

رافیل طیاروں کے گرنے کی خبر آئی تو فرانس کی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشن، جنہوں نے بھارت کو یہ جہاز فراہم کیے، وہ بھی ہکا بکا رہ گئی۔ ترجمان نے کان پکڑ کر کہا: “ہم نے طیارے دئیے تھے شادی کے لیے، جنازے کے لیے نہیں!” ایک فرانسیسی انجینئر تو یہاں تک بول پڑا، “رافیل ایسے نہیں گرتے، انہیں تو بھارتی پائلٹ گرنے پر مجبور کرتے ہیں!”فرانس والوں نے طنزاً مشورہ دیا: “بھارتی فضائیہ اگر رافیل کے ساتھ سیلفی لینے اور ان کے ساتھ گانا گانے کے بجائے تربیت پر دھیان دیتی تو شاید سندور کی مانگ بھرنے سے پہلے بیوگی نہ آتی۔”

اب ذرا بھارتی میڈیا کی حالت دیکھیے، پہلے وہ چیخ چیخ کر کہتے تھے:

“ہم نے پاکستان پر بجلی گرا دی!”لیکن جب پتہ چلا کہ وہ بجلی اپنے ہی ٹرانسفارمر پہ گری ہے تو کہنے لگے:

“اصل میں ہم نے خود کو گرا کر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں۔”

ایک بھارتی اینکر نے تو جذبات میں آ کر رافیل طیارے کی تصویر کے آگے اگربتیاں بھی جلا دیں اور روتے ہوئے کہا:

“یہ محض طیارہ نہ تھا، یہ ہمارے دل کا راجہ تھا، جس نے سندور سے پہلے ہی سہاگ کی بتی گل کر دی۔”

اب چونکہ سہاگ رات نہ ہو سکی، لہٰذا ولیمہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بھارتی دفاعی ماہرین نے اب نئے مشورے دینا شروع کر دیے ہیں۔ کسی نے کہا: “ہمیں رافیل کی جگہ میرج بیورو سے رشتہ کروانا چاہیے، شاید کوئی خاندانی مزاج کا ہتھیار مل جائے۔”

ایک بھارتی جنرل صاحب نے تو یہ اعلان بھی کر دیا کہ “ہم آئندہ آپریشن کا نام رکھیں گے ‘آپریشن انگوٹھی’ تاکہ کم از کم منگنی تو ہو جائے!” اب یہ الگ بات ہے کہ اگر رافیل جیسے مہنگے جہاز شادی کے لڈو کھانے سے پہلے ہی گرا دیے جائیں تو “انگوٹھی” شاید کسی قریبی کھنڈرات میں ملے گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت نے اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ایک نیا کارٹون لانچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے – “رافیل رانی اور سندور کا انتقام”، جس میں رافیل طیارہ ایک غریب، مظلوم لڑکی کی مانند دکھایا گیا ہے جو ہر بار پاکستانی میزائلوں کے ہاتھوں بے عزت ہو جاتی ہےاور آخر کار ایک سوئنگ مشین کے نیچے آ کر مر جاتی ہے۔اور ہمارے پاکستانیوں نے؟ وہ تو اب سوشل میڈیا پر “بیوگی میں بھی سندور لازم” کے ہیش ٹیگ چلا رہے ہیں۔ کسی نے تصویر پوسٹ کی ہے جس میں ایک بھارتی رافیل طیارہ زمین پر گرا ہے اور ساتھ لکھا ہے:

“یہ وہ دلہن ہے جس کی ڈولی اٹھی نہیں، جنازہ پہلے آ گیا!”

حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر ایک پاکستانی صارف نے تبصرہ کیا:

“رافیل طیارے بھارت کو ایسے ہی راس آئے جیسے تیز مصالحے دار بریانی میں کیوڑا پانی – خوشبو تو آئی، پر کھاتے ہی معدہ جل گیا۔”

اب آخر میں بات کرتے ہیں بھارتی حکومت کی، جس نے جنگ کو “آپریشن سندور” کا نام دے کر سمجھا تھا کہ وہ ایک زبردست نفسیاتی حملہ کر رہے ہیں۔ لیکن جب طیارے گرے، اور فرانس سے بھی جھاڑ پڑی، تو وہی مودی جی جو ہر جلسے میں سینہ پھلا کر “بولو بھارت ماتا کی جے” کہتے تھے، اب ماسک لگا کر کہہ رہے ہیں: “ہم نے صرف ٹرائل کیا تھا، اصل آپریشن ابھی باقی ہے۔”

جی ہاں! یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں، “ہم ایک بار میں پورا پاکستان فتح کر سکتے ہیں!” اور پھر اپنے رافیل طیارے تلاش کرتے پھرتے ہیں جیسے دلہن اپنی شادی کی رات گمشدہ شوہر کے لیے اشتہار چھپوا رہی ہو:”میرا پائلٹ، میری امید، میری رافیل، کہاں ہے تُو؟”

پاکستانی عوام نے ایک نعرہ ایجاد کر لیا ہے:

“ناں سندور،ناں سہاگ رات، ناں ولیمہ،

رافیل بن گیا جیسے “نامرد” کمینہ!”

“دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے”

Comments (0)
Add Comment