پہلگام میں ہونے والا دہشت گرد حملہ، جس میں چھبیس معصوم شہریوں نے جان گنوائی، محض ایک واقعہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے پہلے سے پرآشوب ماحول میں جلتی آگ پر تیل بن کر گرا ہے۔ اپنی سفاک نوعیت اور وقتی اثرات کے باعث یہ سانحہ بھارت و پاکستان کے درمیان ایک نئی محاذ آرائی کی بنیاد بن چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر جو برسوں سے ایک سلگتی ہوئی چنگاری ہے، اب اس نہج پر آ چکا ہے کہ اس نوعیت کا کوئی بھی واقعہ پورے خطے کو راکھ کا ڈھیر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حسبِ معمول بھارت نے تحقیق یا ثبوت کے بغیر فوری طور پر پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ عالمی فورمز پر ہمدردی سمیٹنے کے بعد، بھارت نے چھ مئی کو “آپریشن سندور” کے نام پر لائن آف کنٹرول کی صریح خلاف ورزی کی اور بعض مساجد و مدارس کو دہشت گردی کے اڈوں کا لیبل دے کر نشانہ بنایا۔ یہ کارروائیاں نہ صرف عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تھیں بلکہ خطے کے امن کو تار تار کرنے کی ایک کھلی کوشش بھی۔
پاکستان نے نہ صرف فوری دفاعی اقدامات کیے بلکہ اپنی فضائیہ کو بھی مکمل طور پر الرٹ کر دیا۔ بھارتی جنگی طیاروں کی دراندازی کے جواب میں، پاک فضائیہ نے بھرپور ردِعمل دیتے ہوئے پانچ بھارتی طیاروں کو مار گرایا، جن میں تین رافیل طیارے بھی شامل تھے۔ معروف برطانوی جریدے ٹیلی گراف کے مطابق، ایک رافیل کو پاکستانی J-10C نے پی ایل-15 میزائل سے نشانہ بنایا۔ دونوں ممالک جدید ائیر ڈیفنس سسٹمز جیسے پاکستان کا چینی ساختہ HQ-9 اور بھارت کا روسی S-400 استعمال کر رہے ہیں، مگر اس معرکے میں پاکستان کی حکمتِ عملی اور ٹیکنالوجی نے بھارت کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔
یہ واقعہ نہ صرف بھارت کی عسکری برتری کے دعووں کو چیلنج کر گیا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی فضائی صلاحیت کا اعتراف بھی بن گیا۔ اس معرکے کو عسکری و سفارتی حلقے ایک فیصلہ کن کامیابی قرار دے رہے ہیں — ایک ایسی فتح جو طویل عرصے تک یاد رکھی جائے گی۔ مگر یہ کشیدگی یہیں نہیں تھمی۔ آٹھ مئی کو بھارت نے پاکستانی شہروں پر ڈرون حملوں کی بوچھاڑ کی، جنہیں پاکستان نے بلاجواز اور اشتعال انگیز قرار دیا۔ پاکستانی دفاعی نظام نے ان حملوں کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ 25 بھارتی ڈرونز کو تباہ کر کے اپنی دفاعی صلاحیت کا لوہا بھی منوایا۔ لیکن ان سب جھڑپوں نے سرحدی علاقوں میں بسنے والے لاکھوں شہریوں کو غیر یقینی صورتحال اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
یہ جھڑپیں اب صرف لائن آف کنٹرول تک محدود نہیں رہیں بلکہ بین الاقوامی سرحدیں بھی لپیٹ میں آ چکی ہیں۔ موجودہ صورتحال فضائی برتری، ٹیکنالوجی اور اسٹریٹیجک پوزیشننگ کا میدان بن چکی ہے، جہاں ڈرونز، میزائلز، اور جدید فضائی جنگی حربے فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں۔ جنگ کا منظرنامہ اب میدانِ جنگ سے ہٹ کر آسمانوں میں شفٹ ہو چکا ہے، جہاں مہنگی ٹیکنالوجی اور فوری ردعمل ہی فاتح کا تعین کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے، پاکستان جیسی معیشت کو اس دوڑ میں پیچھے رکھ دینے والی چیز صرف وسائل کی کمی ہے، جذبے یا صلاحیت کی نہیں۔ جنگی تیاری کی اس نئی جہت میں ہماری دفاعی پالیسی اور بجٹ کو ازسرِ نو ترتیب دینے کی فوری ضرورت ہے، تاکہ سائبر، انٹیلی جنس اور فضائی شعبے میں ہم ناقابل تسخیر بن سکیں۔
جنگ کسی کے لیے بھی خوشی کا پیغام نہیں لاتی۔ یہ نہ صرف انسانی جانوں کو نگلتی ہے بلکہ معیشت، صحت، تعلیم جیسے شعبوں کو بھی مفلوج کر دیتی ہے۔ موجودہ تناؤ نے خوراک، ادویات، اور مالیات پر منفی اثرات ڈالنے شروع کر دیے ہیں، اور عالمی منڈیوں میں بھی اس کے ارتعاش محسوس کیے جا رہے ہیں۔
عالمی ردِعمل بھی خاصا توجہ طلب ہے۔ امریکہ، روس، برطانیہ اور چین سمیت دیگر ممالک نے اپنے شہریوں کو پاکستان اور ایل او سی سے دور رہنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے صاف کہا کہ دنیا ایک اور مسلح تصادم کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ چین نے بھارت کے اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مسئلے کے سیاسی حل پر زور دیا ہے، جب کہ ایران نے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ مگر یہ تمام کوششیں تاحال زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکیں، جو افسوس ناک ہے۔
ایسے میں یہ سوالات بھی سراٹھا رہے ہیں: کیا پہلگام کا واقعہ “فالس فلیگ آپریشن” تھا؟ کیا یہ بھارت کی داخلی حکمتِ عملی کا حصہ ہے یا کسی بین الاقوامی سازش کی کڑی؟ اگر ایسا ہے تو اس کے پیچھے کیا مفادات کارفرما ہیں؟ پاکستان کی جوہری حیثیت، قدرتی وسائل، سی پیک، یا چین کی بڑھتی ہوئی طاقت؟ ہمیں ان سازشوں سے صرف ہوشیار ہی نہیں بلکہ ان کے مقابلے کے لیے خود کو مزید مضبوط بھی بنانا ہو گا۔
آج جب کہ عوامی جذبات عروج پر ہیں، اور دشمن پر ہماری فضائی برتری واضح ہو چکی ہے، ہمیں حکمت، تدبر اور وسیع تر قومی مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہمیں موثر سفارتی کوششوں سے جنگی جنون کو لگام دینا ہو گی، تاکہ اس خطے کے ڈیڑھ ارب سے زائد انسان کسی ممکنہ تباہی سے محفوظ رہ سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ، ہمیں اپنی عسکری حکمت عملی، فضائی صلاحیت اور دفاعی بجٹ کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔
اگرچہ دونوں ممالک کھلی جوہری جنگ سے گریز چاہتے ہیں، لیکن موجودہ کشیدگی میں ایک معمولی غلطی بھی ناقابلِ تلافی انجام لا سکتی ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ سنجیدہ سفارتی کوششوں سے جنوبی ایشیا کو ایک نئے المیے سے بچائے، تاکہ ہم جنگی جنون سے نکل کر انسانیت کی طرف پلٹ سکیں۔
جیسا کہ راحت اندوری نے کہا تھا
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتا تو کرو چناؤ ہے کیا
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں
تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا