کیفی اعظمی کو بچھڑے 23 برس بیت گئے ( معروف اردو شاعر و ادیب کیفی اعظمی کی 10 مئی کو 23 ویں برسی پر خصوصی تحریر )

صدا بصحرا رفیع صحراٸی

کیفی اعظمی کو بچھڑے 23 برس بیت گئے
۔۔۔۔۔۔۔
معروف ترقی پسند اور فلمی شاعر و کہانی نویس کیفی اعظمی کا 10 مئی 2002 کو جب انتقال ہوا تو ان کی عمر 83 برس تھی۔ انہوں نے بھرپور اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ وہ 14 جنوری 1919 میں مجواں گاؤں ضلع اعظم گڑھ میں،اترپردیش کے ایک مذہبی گھرانے میں سیّد فتح حسین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا نام سیّد اطہر حسین رضوی رکھا گیا۔ کیفی کے والد کے ہاں کل گیارہ بچوں نے جنم لیا جن میں سے ان کا نمبر آٹھواں تھا۔ ان سے بڑی چار بہنیں دق (ٹی بی) کے مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہو گئیں تو والد صاحب نے یکے بعد دیگرے پیش آنے والے ان صدمات کا گہرا اثر لیا۔ ان پر زندگی کی بے ثباتی پوری حقیقت کے ساتھ واضح ہو گئی۔ انہوں نے اطہر حسین کو مذہبی تعلیم دلانے کا سوچا تاکہ ان کی وفات کے بعد ان کے لیے فاتحہ پڑھ سکے، ان کی بخشش کی دعائیں کر سکے مگر ہوا اس کے برعکس، کیفی لکھنؤ کے مدرسہ سلاطان المدارس میں فاتحہ سیکھنے گئے تھے لیکن ڈیڑھ برس بعد اس مدرسے پر فاتحہ پڑھ کر نکلے۔ انہیں مدرسے کا ماحول اور اس میں کئی طرح کی اخلاقی و انتظامی خرابیاں نظر آئیں تو طلبہ کی یونین بنا ڈالی اور اس یونین کے توسط سے انتظامیہ کے سامنے مطالبات رکھ دیٸے۔ ان کے کہنے پر مدرسے میں طلبہ نے مطالبات کے حق میں ہڑتال کر دی جو ڈیڑھ سال تک چلی۔ اس دوران پرجوش نظمیں لکھ لکھ کر کیفی اپنے ساتھیوں کا جوش بڑھاتے رہے۔ ڈیڑھ سال بعد جب مدرسہ دوبارہ کھلا تو کیفی کا نام خارج کر کے انہیں وہاں سے نکال دیا گیا۔ کیفی کو شاید اب وہاں رکنے میں دلچسپی بھی نہیں رہی تھی۔ انہوں نے اس کے بعد لکھنؤ اور الہ آباد یونیورسٹیوں سے فارسی میں دبیر اور عربی میں عالم کی اسناد حاصل کیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ اپنی ایک شاگرد لڑکی کی محبت میں مبتلا ہوئے مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور لکھنؤ میں ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا چنانچہ وہ کانپور چلے گئے۔
کان پور میں ان کی زندگی کا نیا اور انقلابی دور شروع ہو گیا۔ ان دنوں کان پور شمالی ہندوستان میں مزدوروں کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ کیفی اس تحریک کا حصہ بن گئے۔ مارکسزم کے مطالعے نے انہیں پکا کمیونسٹ بنا دیا اور وہ کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی رکن بن گئے۔ وہ کمیونسٹ تحریک کی نمائندگی کرتے ہوئے مزدوروں میں رہ کراپنی نظموں کے ذریعے ان کا لہو گرمانے لگے۔ 1943 میں کیفی اعظمی کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ وہ مشاعروں میں تواتر سے شریک ہوتے رہے۔ سال 1947 میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے وہ حیدرآباد پہنچے جہاں ان کی ملاقات شوکت خانم سے ہوئی۔ یہ ملاقات پسندیدگی اور پسندیدگی چاہت میں تبدیل ہو گئی۔ دونوں کے خاندانوں کی باہم رضامندی سے 23 مئی 1947 کو یہ جوڑی رشتہ ازدواج میں بندھ گئی۔ اسی سال پاکستان بن گیا۔ کیفی کے والد اور بھاٸی پاکستان چلے گئے مگر کیفی نے ہندوستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔
شادی سے پہلے کیفی لا ابالی انسان تھے۔ انہیں کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ماہانہ 45 روپے ملتے تھے جو ان کی محدود ضروریات کے لیے کافی تھے مگر شادی کے بعد اخراجات کا بڑھنا لازمی امر تھا۔ کیفی نے ایک اردو اخبار کے لیے 150 روپے ماہوار پر لکھنے کا کام شروع کیا۔ وہ اردو اخبار کے لیے طنزیہ اور مزاحیہ شاعری لکھنے لگے۔ ان کے ہاں شبانہ (مشہور بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی) پیدا ہوئیں تو اخراجات مزید بڑھ گئے چنانچہ انہوں نے فلموں کے لیے گیت نگاری کا فیصلہ کر لیا۔ سب سے پہلے شاہد لطیف نے ان سے اپنی فلم بزدل کے دو گیت لکھوائے اور 1000 روپے معاوضہ دیا۔ اس کے بعد تو یہ سلسلہ چل نکلا اور کیفی اعظمی جو کہ ترقی پسند شاعری کے حوالے سے فیض اور مخدوم کے بعد تیسری اہم ترین آواز سمجھے جاتے تھے، ایک بڑے فلمی شاعر کے روپ میں سامنے آئے۔ کیفی اعظمی کو فلموں میں غیرمعمولی شہرت اور کامیابی ملی جس نے انہیں فکرِ معاش سے آزاد کر کے آسودگی بخشی۔ وہ فلمی دنیا کے ان چند گنے چنے ادیبوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے فلمی گیتوں کے علاوہ فلموں کی کہانیاں، منظر نامے اور مکالمے لکھے۔ ہندوستان کی بلاک بسٹر اور شاہکار فلم ہیر رانجھا کی کہانی کے علاوہ مکالمے بھی کیفی اعظمی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ اس فلم کے مکالموں کی خصوصیت یہ ہے کہ پوری فلم کے مکالمے منظوم ہیں۔ فلم کے تمام مکالمے منظوم لکھنا کیفی اعظمی کا بے مثال اور لازوال کارنامہ ہے۔ نہ ان سے پہلے یہ کارنامہ کسی نے انجام دیا اور نہ ہی بعد میں یہ مشکل کام کسی کے حصے میں آیا۔ انہوں نے لاتعداد فلموں کے گیت اور مکالمے لکھے جن میں بزدل، کاغذ کے پھول، ہیر رانجھا، گرم ہوا، سات ہندوستانی، پاکیزہ، ہنستے زخم اور ارتھ کے نام سرِ فہرست ہیں۔ ان کے مقبول فلمی گیتوں میں ” وقت نے کیا، کِیا ستم، تم رہے نہ تم، ہم رہے نہ ہم“ ، ”یونہی کوئی مل گیا تھا، سرِ راہ چلتے“ ، ”یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں“ ، ”ملو نہ تم تو ہم گھبرائیں ملو تو آنکھ چرائیں ہمیں کیا ہو گیا ہے“ ، ”تم اتنا جو مسکرا رہے ہو۔ کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو“ ، ”آج سوچا تو آنسو بھر آئے، مدتیں ہو گئیں مسکرائے“ ، ”دھیرے دھیرے مچل اے دلِ بیقرار کوئی آتا ہے“ ، ”ملے نہ پھول تو کانٹوں سے دوستی کر لی“ ، ”دو دل ٹوٹے دو دل ہارے۔ دنیا والو صدقے تمہارے“ ، ”بہارو! میرا جیون بھی سنوارو“۔ “ہے تیرے ساتھ میری وفا، میں نہیں تو کیا”، ” جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں”، “پیاس بھڑکی ہے سرِ شام سے جلتا ہے بدن” شامل ہیں۔
کیفی اعظمی اپنی امر ہو جانے والی نظموں خانہ جنگی،

Comments (0)
Add Comment