سدرہ خان، جو اس وقت لاہور کے اقبال ٹاؤن ڈویژن میں ایس پی انویسٹی گیشن کے طور پر خدمات انجام دے رھی ہیں، پنجاب پولیس کی ان چند خواتین افسران میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت، قیادت اور جرائم کے خلاف مؤثر اقدامات سے نمایاں مقام حاصل کیا ھے۔
ان کی پیشہ ورانہ پس منظر اور تعیناتی کے بارے میں بات کریں تو سدرہ خان نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز پنجاب پولیس میں بطور اے ایس پی کیا۔ انہوں نے مختلف اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں، جن میں صدر ڈویژن لاہور میں ایس پی آپریشنز اور ڈیفنس میں اے ایس پی شامل ہیں۔ جنوری 2025 میں، انہیں اقبال ٹاؤن ڈویژن میں ایس پی انویسٹی گیشن کے طور پر تعینات کیا گیا۔ اس تعیناتی کے بعد سے، انہوں نے جرائم کی روک تھام، تفتیشی عمل کی بہتری اور عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ جن کی وجہ سے لوگوں کا پولیس پر اعتماد نا صرف بحال ھوا بلکہ بڑھ گیا۔
ان کی نمایاں کامیابیوں میں سےاہم ترین کامیابی میں سی اگر اس کیس کا ذکر اگر نا کیا جائے تو زیادتی تصور ھو سکتی ھے جس امر کا میں ہرگز متحمل نہیں ہونا چاہتا۔اا کیس میں ایک اغوا شدہ بچے کی بازیابی ھے ۔ یہ مارچ 2025 کا ذکر ھے۔ سدرہ خان کی قیادت میں لاھور سے سات ماہ قبل اغوا ہونے والے 16 سالہ عبداللہ کو خیبرایجنسی کے علاقے باڑہ سے بازیاب کرایا گیا۔ ملزمان نے عبداللہ کو منشیات کے عوض گروی رکھوایا تھا۔ اس کامیاب کارروائی میں جدید ٹیکنالوجی اور ہیومن انٹیلیجنس کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ اس اہم اور نازک مراحل پر مبنی کیس کی کامیابی پرانسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل انویسٹیگیشن سید ذیشان رضا نے ایس پی سدرہ خان کی بہت تعریف بھی کی اور تمام ٹیم کو تعریفی اسناد سے بھی نوازا گیا۔
ایک اور اھم ترین کیس کے بارے میں بات کریں تو ایک باؤنس چیک کیس کی تفتیش بھی سدرہ خان کو سونپی گئی۔
مارچ 2025 میں، لاہور ہائیکورٹ میں دو کروڑ روپے سے زائد رقم کے باؤنس چیک کے ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران، سدرہ خان عدالت میں پیش ہوئیں۔ ان کی پیشی اس بات کا مظہر ھے کہ وہ اہم مالیاتی جرائم کی تفتیش میں بھی بھرپور کردار ادا کر رھی ہیں۔
اور اگر ہم بات کریں. پولیس مقابلوں میں قیادت کی تو اس میں بھی خاتون نے بہت دلیری کا مظاہرہ کیا ھے۔
اقبال ٹاؤن اور جوہر ٹاؤن میں ہونے والے پولیس مقابلوں میں سدرہ خان نے مؤثر و مسلسل قیادت فراہم کی۔ ان مقابلوں میں بیشتر ڈاکوؤں کو مقابلوں کے بعدگرفتار کیا گیا اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا۔ ان کی قیادت میں پولیس نے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت کارروائیاں کیں۔ اب اس بات کی عام عوام بھی گواہ ھے کے سدرہ خان کو جو کام سونپا گیا وہ انہوں نے بہترین طریقے سے سرانجام دیا۔ان کو جو بھی قیادت ملی اس میں انہیں کامیابی حاصل ھوئی اور بے شک نیک اولاد پر اس کی ماں اور باپ کی دعائیں شامل حال رھتی ہیں۔
اپنے اس سفر میں سدرہ خان نے پولیس ڈویژن کی قیادت اور تفتیشی عمل میں بہتری کے لئے دن رات کام کیا ھے ۔عام عوام کو ایس پی تک عام رسائی حاصل ھوئی ھے۔بے شک عوام کی مشکلات کو اگر بہتر طریقے سے سن کر پھر بہتری کا عمل کیا جائے تو بہترین نتائج حاصل ھوتے ہیں۔ان باتوں کا اندازہ ان کی صلاحیتوں سے بھرپور شخصیت سے ملاقات کے بعد ھوا۔
سدرہ خان نے اقبال ٹاؤن ڈویژن میں تفتیشی عمل کو مؤثر بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے زیرِ تفتیش مقدمات کی جلد از جلد تکمیل، نامزد ملزمان کی گرفتاری اور نامعلوم مقدمات کی تفتیش کو ترجیح دی۔ ان کی قیادت میں تفتیشی ٹیموں نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کئی پیچیدہ مقدمات کو حل کیا کر کے عوام کا دل جیت لیا ۔ ان کے اس امر سے عوامی اعتماد کی بحالی ممکن ھو سکی
سدرہ خان نے پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرنے کے لیے کمیونٹی پولیسنگ کو فروغ دیا۔ انہوں نے عوامی شکایات کے فوری ازالے، تھانوں میں بہتر سروسز کی فراہمی اور خواتین کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ ان کے ان اقدامات سے عوام میں پولیس کے بارے میں مثبت تاثر پیدا ہوا۔
سدرہ خان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد اہم اعزازات سے نوازا گیا۔ مارچ 2024 میں، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے انہیں اور ان کی ٹیم کو تعریفی اسناد سے نوازا۔ یہ اعزازات ان کی جرائم کے خلاف مؤثر کارروائیوں اور تفتیشی عمل میں بہتری کے اعتراف میں دیے گئے۔
ایس پی انویسٹیگیشن سدرہ خان کی قیادت میں اقبال ٹاؤن ڈویژن میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ھے۔ ان کی پیشہ ورانہ مہارت، قیادت اور عوامی خدمت کے جذبے نے انہیں ایک مثالی پولیس افسر کے طور پر نمایاں کیا ھے۔ ان کی خدمات نہ صرف پولیس فورس کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے قابلِ فخر ہیں.