پاکستان کی حکومتی ملکیتی اداروں کا سال 2024میں خسارہ جزوی طور پر کچھ کم ضرورہوا لیکن اب بھی اوسط خسارہ 851 ارب روپے رہا، بڑے خسارے والے حکومتی ملکیتی اداروں میں سرفہرست نیشنل ہائی وے اتھارٹی( این ایچ اے) رہا جس کا خسارہ 295ارب50کروڑ روپے ہے۔
وزارت خزانہ نے حکومتی ملکیتی اداروں سے متعلق رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی ( کیسکو) کا خسارہ 120ارب40کروڑ روپے، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی ( پیسکو) 88 ارب 70کروڑ ر وپے، پی آئی اے کا 73 ارب 50کروڑ روپے، پاکستان ریلوے کا 51 ارب 30 کروڑ روپے، سیپکو ( سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی) کا 37ارب روپے، لیسکو (لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی ) کا 34 ارب 50کروڑ روپے، پاکستان اسٹیل ملز کا 31 ارب 10کروڑ ر وپے، حیسکو ( حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی) کا 22 ارب 10 کروڑ روپے، جنکو ٹو کا 17 ارب 60کروڑ روپے، آئیسکو (اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی)، پاکستان پوسٹ کا 13 ارب40کروڑ روپے، ٹیسکو ( ٹرائبل ایریا الیکٹرک سپلائی کمپنی) کا ساڑھے 9 ارب روپے، جیپکو (گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی) کا ساڑھے 8 ارب روپے، جنکو تھری کا 7 ارب80کروڑ روپے اور دیگر کمپنیوں کا مجموعی خسارہ 23 ارب 70کروڑ روپے رہا۔
رپورٹ کے مطابق منافع بخش اداروں میں سرفہرست او جی ڈی سی ایل کا منافع 208 ارب 90کروڑ روپے، پیٹرولیم لمیٹڈ کا 115 ارب 40 کروڑ روپے، نیشنل پاور پارکس کا 76 ارب 80 کروڑ روپے، گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کا 69 ارب 10کروڑ روپے، پاک عرب ریفائنری کمپنی کا 55 ارب روپے، پورٹ قاسم اتھارٹی کا 41 ارب روپے، میپکو (ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی) کا 31ارب 80کروڑ روپے، نیشنل بینک آ ف پاکستان کا 27 ارب 40کروڑ روپے، واپڈاکا منافع 22 ارب 20 کروڑ روپے، کے پی ٹی کا 20 ارب 30کروڑ روپے، پی این ایس سی کا 20 ارب 10کروڑ روپے، پی ایس او کا 19ارب 60کروڑ روپے، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کا 18 ارب 30کروڑ روپے، پی کے آئی سی کا 15 ارب 20کروڑ روپے منافع ریکارڈ کیاگیا۔
وزارت خزانہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے خسارے میں جانیوالے اداروں کی 1586ارب روپے کی مالی معاونت کی، اس میں 367 ارب روپے گرانٹس، 782ارب روپے سبسڈیز ، 336ارب قرض اور 99 ارب روپے ایکویٹی کی صورت میں فراہم کیا گیا، یہ مجموعی وفاقی بجٹ کی وصولیوں کا 13فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024 میں حکومتی ملکیتی اداروں نے قومی خزانے میں مجموعی طور پر 2062 ارب روپے جمع کرائے، ان میں ٹیکس کی مد میں 372 ارب روپے جمع کرائے، نان ٹیکس ریونیو، رائلٹی اور لیویز کی مد میں 1400 ارب روپے جمع کرائے، ڈیویڈنڈ کی مد میں 82 ارب روپے اور منافع کی مد میں 206 ارب روپے جمع کرائے۔
مالی سال 2024 میں حکومتی ملکیتی اداروں کا مجموعی ریونیو 13524ارب روپے پیدا ہوا جو مالی سال 2023 میں 12848 ارب روپے تھا، اس ریونیو میں 5.26 فیصد اضافہ ریکارڈ کیاگیا، حکومت نے حکومتی ملکیتی اداروں کو مالی سال 2024 میں 1419ارب روپے کی ساورن ضمانتیں فراہم کیں جو مالی سال 2023کے مقابلے میں 13فیصد کم ہیں۔
اس خسارے پر قابو پانے اور حکومتی کندھوں پر بوجھ کم کرنے کیلیےوفاقی حکومت نے رائٹ سائزنگ کے تحت تقریبا 31 ہزار سرکاری اسامیاں ختم کردیں، سیکریٹری کابینہ نے بتایا کہ 7 ہزار 724 اسامیوں ختم کرنے کے مراحل میں ہیں، گریڈ 17 سے 22 تک کی ایک ہزار 102 اسامیوں کو ختم کیا گیا، ان اسامیوں کو ختم کرنے سے حکومت کو 30 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
سیکریٹری کابینہ کامران علی افضل نے سلیم مانڈوی والا کی زیر صدرات سینیٹ کی قائمہ خزانہ کمیٹی کے اجلاس کو رائٹ سائزنگ بارے بریفنگ دی-
کمیٹی کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے 30 ہزار 968 سرکاری آسامیاں ختم کر دی ہیں، سب سے زیادہ آسامیاں گریڈ ایک میں 7 ہزار 305 ختم کی گئیں، گریڈ ایک میں مزید 4 ہزار 253 آسامیاں ختم ہوں گی، گریڈ 21 اور 22 کی دو، دو ، گریڈ 20 کی 36 پوسٹیں،گریڈ 19 میں 99 آسامیاں ختم کی گئیں۔
سینیٹ کی قائمہ خزانہ کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ مستقبل میں گریڈ 19 کی مزید 71 آسامیاں ختم کی جائیں گی، گریڈ 18 میں 203 آسامیاں ختم کر دی گئیں جبکہ مزید 36 ختم کی جائیں گی۔
اسی طرح گریڈ 17 میں 760 آسامیاں ختم کی گئی ہیں، مستقبل میں مزید 58 آسامیاں ختم ہوں گی، آسامیاں ختم کرنے سے قومی خزانے کو 30 ارب روپے کی بچت ہوگی-
رائٹ سائزنگ کے نتیجے میں حکومتی اخراجات میں مستقل میں کمی آئے گی-
سیکرٹری کابینہ نے بتایا کہ وزیر اعظم نے حکومت کا حجم کم کرنے کی ہدایت کی تھی، اس مقصد کے لیے وزیر اعظم نے ادارہ جاتی اصلاحات کی ہدایت کی تھی، اہم سوال یہ تھا کہ وفاقی حکومت اپنا کام کرے اور اضافی امور صوبوں کو دے دیئے جائیں، وزیر اعظم نے حکومت کے کمرشل کاموں کا بھی جائزہ لینے کا کہا تھا ریگولیٹری اداروں پر رائٹ سائزنگ کا اثر نہیں آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ریگولیٹری اداروں سے بھی کنسلٹنٹس، اسٹاف، تنخواہوں کے بارے میں پوچھا گیا ہے، خودمختار اداروں پر اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، رائٹ سائزنگ کمیٹی کے کام کا جائزہ لیا جاتا ہے، رائٹ سائزنگ کے بارے میں سوالات پوچھے بھی جاتے ہیں-
کمیٹی رکن شیری رحمٰن نے سوال کیا کہ ایک طرف اخراجات کم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں، دوسری طرف وفاقی کابینہ میں دگنا اضافہ کر دیا ہے ، رائٹ سائزنگ ملازمین کے لیے، یہ صورتحال کافی تکلیف دہ ہوگی جن ملازمین کو زبردستی ریٹائر کیا جائے گا، ان پر کیا اثرات آئیں گے۔
سیکریٹری کابینہ نے جواب دیا کہ حکومت کا یہ فیصلہ بہت اہم ہے کہ رائٹ سائزنگ کی جائے، صرف اس ایک فیصلے سے بہت بچت ہو گی، محکموں میں پوسٹیں ختم کرنے سے بہت بچت ہوئی ہے، نئے وزراء کی تقرری سے وزارتوں کی کارکردگی بہتر ہو گی۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہر وزارت کا سیکریٹری اس شعبہ کا ماہر ہونا چاہیے، جس پر سیکریٹری خزانہ نے جواب دیا کہ پنجاب میں یہ تجربہ کیا گیا، ڈاکٹر کو سیکریٹری صحت بنایا گیا تو کارکردگی گر گئی۔
محسن عزیز کا کہنا تھا کہ سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین نے 4 سال کی محنت سے رپورٹ تیار کی تھی اس رپورٹ پر عملدرآمد کیا جائے۔
سینیٹر انوشہ رحمٰن نے کہا کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے 12 اداروں میں کوئی کام نہیں ہو رہا کو بند ہونا چاہئے-
واضح رہے کہ گزشتہ برس کی