“آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ” کیا کیا دیکھا کیا کیا کھویا اور کیا کیا پایا” ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دل کا” کتنے آئے کتنے گئے اندازہ لگانا بھی ناممکن( کیتی جمے تے مڑ موئے کیتی موئے جمے) دیکھنے والوں نے تو بہت کچھ دیکھا اور جو لوگ دنیا میں آئے ضرور لیکن شروع سے ہی صفت بصارت سے محروم رہے وہ تو شاید سارے خواب آنکھوں میں لئے ہی دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے خوابوں کی نوعیت کیا ہے۔ اس بات کا اظہار ایک معروف ادیبہ ہیلن کیلری نے اپنے مضمون تھری ڈیز ٹو سی میں کیا ہے۔ انسان بڑا ہی حساس ہے اور اگر اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا ہی کچھ نہ ہو تو یہ بات ہم سب کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں کتنی بڑی نعمت سے سرفراز فرمایا ہے اور پھر بھی ہم اپنے آپ کو اس بات کی اہمیت سے آگاہ کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ آگاہی بہت بڑا انعام ہوتا ہے اور آگاہی کے پودے سے ہی شعور کے شگوفے پھوٹتے ہیں۔ کاش مصنفہ ہیلن کیلری کا مذکورہ مضمون ہم سب پڑھ لیتے لیکن کیسے پڑھتے یہ مضمون تو انگلش میں ہے اور ہم میں سے اکثر لوگ انگریزی سیکھنے، پڑھنے اور بولنے کے خلاف ہیں۔ اور انگلش جاننے والے بھی چاہتے ہیں کہ کہیں سارے لوگ متذکرہ بالا زبان جان نہ جائیں اس طرح تو ان کی انفرادیت خطرے میں پڑ جائیگی ۔خیر زبانوں میں رکھا ہی کیا ہے معاملہ تو زیادہ سے زیادہ جاننے کا ہے۔ اسی لئے شاید خاتم النبیین حضرت سیدنا محمد الرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ آج کے تناظر میں چین جانا کسی طرح بھی خالی از حکمت نہیں ہے۔ آخر کوئی تو بات ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ چین کا نام سنتے ہی کانپ جاتے ہیں، ڈر جاتے ہیں، مشتعل ہو جاتے ہیں بلکہ انتقام پر اتر آتے ہیں اور انتقام کے نتیجے میں تو انسان کچھ بھی کر سکتا ہے اور اگر انسان محترم ومکرم ٹرمپ ہو جو جنون پر پوری طرح یقین رکھتا ہے۔ پھر تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ابھی تک تو ٹیرف تک بات پہنچی ہے۔ چین اور دیگر ممالک” سکی نال گلی وڈی جارہی اے” اللہ خیر کرے
صوفیائے کرام نے پوری دنیا میں خیر کا کام کیا ہے یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس جس نے بھی خیر کا کام کیا ہے وہ خیر سے جانا پہچانا گیا ہے اور اس کے تذکرے زبان زد خاص وعام ہوئے ہیں اور ایسے لوگ مر کر بھی زندہ ہوئے ہیں۔ بے شک وہ آج ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی باتیں ہر کونے اور گوشے میں ہو رہی ہیں اور مجھ جیسے لوگوں سے بھی دنیا بھری پڑی ہے جن کی محض باتیں ہی باتیں ہیں اور ہم سب اب ٹک ٹاک بنا کر اپنی بات بنانا چاہتے ہیں۔ بات بنانے کے لئے عمل کی ضرورت ہے کیونکہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ ہم جنت بنانے والوں کے وارث ہیں۔ اس بات کا ہمیں شعوری احساس ہونا چاہیئے تب جا کر چراغ سے چراغ جلتے ہیں ۔ ایک وقت تھا جہالت عام تھی ہمارے بابے عرب سے اٹھتے ہیں اور عجم میں آکر پوری دنیا کو زیور تعلیم سے آراستہ کردیتے ہیں۔ بھوک اور افلاس میں جب لوگ روٹی ٹک کے لئے ترس رہے ہوتے ہیں تو بابے جابجا دستر خوان بچھا کر صلائے عام دیتے ہیں اور پھر بھوک پیاس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور بات آگے بڑھتی ہے۔ جب نفرت، حقارت، حسد، تکبر اور رعونت کی بدولت بنی نوع انسان چھوٹے بڑے میں تقسیم ہو جاتے ہیں تو یہی بابے اخلاص، محبت، پیار، بھائی چارے اوراخوت کی بنیاد پر مساوات کی ایسی عمارت تعمیر کرتے ہیں کہ محمود ایاز ایک ہی صف میں براجمان ہو جاتے ہیں اور معاشرہ مبنی براخلاص اور مبنی بر انصاف کی بنیاد پر قائم ہوجاتا ہے
آنکھیں اللہ تعالی کی طرف سے دیا گیا بہت بڑا انعام ہیں اسی لئے شاید قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ دیکھنے والے اور اندھے برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔ آنکھوں کے بارے میں کسی نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا ہے۔ ع۔ تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے۔ تاہم یہ شعری زبان ہے۔ آنکھ آنکھ میں فرق ہوتا ہے۔ نین نشیلے بھی آنکھ ہی کی ایک قسم ہے۔ آنکھ بھر کے دیکھنے کے بھی اہم نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ آنکھ پھیر لینے سے برے دن شروع ہو جانے کا امکان ہوتا ہے نظر سے گر جانا تو تباہی ہے اللہ ایسے وقت سے بچائے اور نظر میں رہنا اور محفوظ ہاتھوں میں رہنا ایک ہی بات ہے۔ نظر اور آنکھ ایک ہی چیز ہیں لہذا آنکھ پر نظر رکھتے ہیں۔ صوفی برکت علی لدھیانوی رح فیصل آباد کا وہ بابا تھا جس نے روحانی طور پر بھی اور عملی طور پر بھی آنکھوں کا علاج کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں آئی کیمپ کا آغاز کروایا تھا اور وہ سلسلہ پھر آگے سے آگے بڑھتا گیا۔ اب تو ان کے ہاں باقاعدہ ایک آنکھوں کا ہسپتال ہے۔ جہاں خلق خدا کا فری علاج کیا جاتا ہے اور خصوصی طور پر سال کے مختلف دنوں میں فری آئی کیمپ لگوائے جاتے ہیں۔ خیر ہی خیر۔ صوفی جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے مزارات آج بھی مرجع خلائق ہیں۔ بھوکے کو کھانا ملتا ہے۔ پریشان حال لوگوں کو سکون ملتا ہے۔ تشنگان علم زیور تعلیم سے آراستہ ہو جاتے ہیں اور اندھوں کو آنکھوں کی نعمت سے نواز دیا جاتا ہے۔ عطا من جانب اللہ ہے۔ فیض کا سلسلہ بالواسطہ بھی ہوتا ہے اور بلاواسطہ بھی ہوتا ہے۔ ویسے بھی ہم عالم اسباب میں رہ رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ راجن پور نے خواجہ کلیم