ماہ رمضان المبارک

اورنگزیب اعوان

اللہ رب العزت کی بیشمار نعمتوں میں سے ایک نعمت ماہ رمضان المبارک ہے. اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ رحمت، مغفرت اور نجات کے دروازے کھول دیتا ہے . ایک نیکی کا بدلہ ستر نیکیوں کے برابر کر دیا جاتا ہے. اللہ رب العزت کو اپنے بندے سے اس قدر پیار ہے. کہ وہ قدم قدم پر اس کی بخشش کے مواقع پیدا کرتا ہے. نماز، روزہ، حج، زکوۃ شپ معراج، شب برات، شب قدر، محرم، گویا سارا سال اس کی بخشش اور مغفرت کے اسباب رکھے گئے ہیں. اگر وہ سال بھر بھی ان عوامل سے مستفید نہیں ہو پاتا. تو ماہ رمضان المبارک میں سال بھر کی غلطیوں، کوتاہیوں کی معافی کے لیے ہر نیک عمل کا آجر ستر گنا کر دیا گیا ہے. تاکہ انسان کو سال بھر کے گناہوں سے بری الذمہ کر دیا جائے. رب العزت کسی صورت انسان کو دکھ تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھنا چاہتا. اس لیے ہر گناہ کے بعد توبہ کا دروازہ کھولا رکھا ہے. اگر اللہ رب العزت چاہتا تو کوئی شخص بھی گناہ کے قریب ہی نہ جانتا.مگر اس ذات پاک نے انسان کو سمجھانے اور سیکھانے کے لیے گناہ اور نیکی کو پیدا کیا.کوئی بھی انسان جب گناہ کرتا ہے. تو اس پر اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے. جبکہ نیکی کرنے پر اسے دلی سکون میسر آتا ہے. دین اسلام محبت، بھائی چارے، صلہ رحمی کا درس دیتا ہے. دین اسلام بہت ہی آسان مذہب ہے. مگر ہماری لاعلمی اور علماء کرام نے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے. انسان اچھی زندگی گزارنے کے لیے دنیاوی علوم کی ڈگریاں حاصل کرتا ہے. اس کے نزدیک اس کی پہچان ان ڈگریوں اور میڈل سے ہوتی ہے. ڈاکٹر، انجنئیر، وکیل، استاد ،غرض ہر شعبہ زندگی میں اعلی تعلیم سے آراستہ افراد خود پر فخر کرتے ہیں. کرنا بھی چاہیے. انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے. کسی بھی دنیاوی علوم پر مکمل عبور حاصل کیا ہے. لمحہ فکریہ ہے. ان سب لوگوں کے لیے کہ انہوں نے اپنی آخرت کو بنانے کے لیے کیا سیکھا. اللہ رب العزت نے تو قرآن پاک اور سیرت نبی کی صورت میں دین اسلام ان کے سامنے رکھ دیا ہے. جس کو وہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا. انسانوں نے دین کے فرائض کی انجام دہی کے لیے ایک طبقہ مخصوص کیا ہوا ہے. جہنیں علماء کرام کہا جاتا ہے. یہ لوگ دین کی تبلیغ اور اشاعت کے فرائض انجام دیتے ہیں. اس کے بدلہ میں دیگر دنیاوی علوم میں کامیاب انسان انہیں معاوضہ دیتے ہیں. یہ علماء کرام سمجھتے ہیں. کہ عام انسان کو دین کے بارے میں علم نہ ہونے کے برابر ہے. اس لیے وہ لوگوں کے ذہنوں میں خوف پیدا کر کے اپنے روزگار کو بڑھاتے ہیں. ہماری مساجد میں خطبہ جمعہ و دیگر مواقع پر علماء کی طرف سے دین اسلام کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے. کہ دین اسلام بہت سخت گیر مذہب ہے. دوزخ، آگ، سزا کے علاوہ کچھ نہیں بتایا جاتا. جبکہ دین اسلام تو مکمل طور پر امن کا گہوارہ ہے. اس میں سلامتی ہی سلامتی ہے. علماء کرام لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرکے اپنی روزی روٹی چلانا چاہتے ہیں. جس کی وجہ سے ہماری مساجد ویران پڑی ہے. جس دن انہوں نے لوگوں کو دین اسلام کے نرم گوشہ بارے بتانا شروع کیا. مساجد میں رونق لگ جائے گی. دیگر دنیاوی علوم کی طرح ہر انسان کو قرآن کریم کو بھی سمجھ کر پڑھنا چاہیے. اور دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس ہونا چاہیے. دین کو صرف اور صرف علماء کرام کے سپرد مت کرے.. آج ہماری نوجوان نسل مغربی کلچر کی دیدادہ ہوتی جا رہی ہے. وجہ علماء کرام کا سخت گیر رویہ. کاش اولیاء اللہ کی تعلیم و تربیت کا فیض آج بھی جاری و ساری ہوتا.سچے اور کامل بزرگان دین آج بھی دنیا میں ہوتے. تو رشد و ہدایت کا چشمہ بہہ رہا ہوتا. قصور نوجوان. نسل کا نہیں. جو شراب نوشی، زنا، بدکاری جیسی مغربی روایات کو اپنا رہی ہے. اس کے ذمہ دار مذہبی ٹھیکیدار ہیں. جو آپس میں دست و گریبان ہیں. سنی بریلوی، وھابی اہلحدیث کو نہیں مانتا، اہلحدیث شیعہ کو کافر کہتا ہے. سب ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں سبقت لیجانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں. یہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک نہیں ہوتے. ایک دوسرے کی مساجد میں نماز ادا نہیں کرتے. ایسے میں نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار نہ ہو تو اور کیا ہو. ان سب کی دین اسلام بارے اپنی اپنی تشریحات ہیں. نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو سکول و کالجز میں مغربی کلچرل پڑھایا اورسیکھایا جاتا ہے. جس کو پڑھ کر وہ سمجھتے ہیں. کہ مغربی کلچر دین اسلام سے بہتر اور آسان ہے. اس میں زیادہ پابندیاں نہیں. کاش ہمارے مذہبی ٹھیکیدار دین اسلام کی حقیقی خوبصورتی بیان کرنے ہر توجہ دیتے. تو نوجوان نسل کو پتہ چلتا. کہ اس سے بہتر تو کوئی اور مذہب ہے ہی نہیں. دین اسلام ہر شعبہ زندگی بارے مکمل رہنمائی فرماتا ہے. مگر اپنی روزگار کے چکر میں علماء کرام اس کے سخت پہلو کی تشہیر کرتے ہیں. یہ معاشرے کی بے حسی کی زندہ تصویر ہے. جب ہم لوگ مذہبی فرائض ادا کرنے والے کو ماہانہ پچیس ہزار روپے پر علاقہ کی مسجد میں امام رکھتے ہیں. اور شادی بیاہ میں ناچ گانے والے کو لاکھوں روپیہ دیتے ہیں. تو پھر ان سے اچھے کی توقع بھی نہ رکھے. معاشرے تنزلی کا شکار ایسے ہی نہیں ہوتے. ہماری مساجد ویران پڑی ہیں. سوسائٹی کلبوں میں رش ہوتا ہے. کیونکہ وہاں شراب، نوشی، ڈانس کی محفلیں چلتی ہیں. یہ سب کچھ دین اسلام کی دوری کے سبب ہو رہا ہے. جس دن لوگوں نے دین اسلام کی تعلیمات کو عام دنیاوی علوم کی طرح پڑھنا اور سمجھنا شروع کر دیا. معاشرے میں انقلاب برپا ہو جائے گا. ماہ رمضان المبارک میں تمام لوگ مساجد کی طرف بھاگتے ہیں. روزے بھی رکھتے ہیں. مطلب دیکھاوا اپنے عروج پر ہوتا ہے. ہر کوئی دوسرے کو بتا رہا ہوتا ہے. کہ آج میرا روزہ ہے. روزہ محض

Comments (0)
Add Comment