اکستان میں انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں اور ان کا حل

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

پاکستان میں عدالتی نظام کو درپیش مسائل کی جڑیں کئی عوامل میں پیوست ہیں، جن میں ناقص طرزِ حکمرانی (گڈ گورننس) سب سے نمایاں ہے۔ جب حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے ادا نہیں کرتے، تو عوام کو اپنے حقوق کے لیے عدالتوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے، اور انصاف کی فوری فراہمی مشکل ہو جاتی ہے۔ناقص گورننس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عوام کو بنیادی حقوق اور سہولیات میسر نہیں آتیں، حکومتی محکمے کام نہیں کرتے۔ حالت یہ ہے کہ آپ کسی بھی حکمتی محکمے کے دفتر میں چلے جائیں اول تو عملہ موجود ہی نہیں ہوتا اگر ہو بھی تو کام نہ کرنے کے بہانے بنائے جاتے ہیں اور عوام کو ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے عدالتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک سول جج کے سامنے روزانہ ڈھائی سے تین سو کیسز پیش ہوتے ہیں، جبکہ عملی طور پر وہ صرف 40 سے 45 کیسز پر مناسب توجہ دے سکتا ہے۔ عملے کی کمی اور سہولیات کے فقدان کے باعث یہ بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے، جس کے باعث عوام کو تاریخ پر تاریخ ملتی رہتی ہے اور مقدمات کے فیصلے دہائیوں تک التوا کا شکار رہتے ہیں۔قرآن پاک میں اس صورتحال کی نشاندہی ان الفاظ میں کی گئی ہے:”اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اس میں نافرمانی کرتے ہیں، پس اس پر عذاب کا حکم ثابت ہو جاتا ہے، پھر ہم اسے برباد کر دیتے ہیں۔” (سورۃ الإسراء، آیت 16)اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ جب حکمران اور معاشرے کے طاقتور افراد اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے تو پورے نظام میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی صورتحال پاکستان میں نظر آتی ہے، جہاں ادارے اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہیں، اور اس کا براہِ راست اثر عدلیہ پر پڑتا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی ایک اور بڑی وجہ ججز اور عدالتی عملے کی کمی ہے۔ جب ایک جج کو روزانہ سیکڑوں کیسز سننے ہوں، اور ساتھ ہی عملے کی کمی کا سامنا ہو، تو انصاف کی فراہمی کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ فیصلے لکھنے کے لیے سٹینوگرافر کی عدم موجودگی یا ریڈر کی غیر حاضری بھی مقدمات میں تاخیر کا سبب بنتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشد ہے کہ”جب حکمرانی نااہل لوگوں کے سپرد کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔” (صحیح بخاری، حدیث نمبر 59) ہمارے عدالتی اور انتظامی نظام کی موجودہ صورتحال پر صادق آتی ہے، جہاں نااہل افراد کی تقرری اور غیر مؤثر حکمرانی کے باعث عوام کو انصاف کے حصول میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اگر عدالتی عملے اور ججز کی تعداد بڑھا دی جائے، اور ان کے لیے سہولیات کو بہتر بنایا جائے، تو انصاف کی فراہمی میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔پاکستان میں انصاف کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ معاشرتی اخلاقیات کی زبوں حالی بھی ہے۔ ایک مثالی معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں لوگ اپنے فرائض دیانت داری سے ادا کریں اور دوسروں کے حقوق کا احترام کریں۔ تاہم، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں دھوکہ دہی اور جھوٹ عام ہیں، جس کے باعث مقدمات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر لوگ قرآن اور سنت کی تعلیمات پر عمل کریں تو عدالتوں کا بوجھ خودبخود کم ہو جائے گا۔قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے ”بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے اور رشتہ داروں کو دینے کا بھی، اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق حاصل کرو۔” (سورۃ النحل، آیت 90)۔اس آیت میں انصاف اور احسان کو معاشرتی نظام کا بنیادی ستون قرار دیا گیا ہے۔ اگر لوگ خود انصاف پسند اور ایماندار ہو جائیں، تو مقدمات کی تعداد میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔سقراط (Socrates): سقراط کے نزدیک انصاف کسی بھی معاشرے کی بقاء کے لیے لازمی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ انصاف صرف قوانین کی پاسداری نہیں بلکہ ایک اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ اگر لوگ اپنے فرائض دیانتداری سے انجام دیں، تو عدالتوں پر بوجھ خودبخود کم ہو جائے گا۔افلاطون (Plato): افلاطون نے اپنی کتاب ”ریپبلک” میں انصاف کو ریاست کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اس کے مطابق، ایک منظم اور انصاف پسند معاشرے میں ہر فرد اپنے فرائض انجام دیتا ہے، اور اس کے نتیجے میں انصاف خودبخود قائم ہو جاتا ہے۔پاکستان میں اگر لوگ اپنے اخلاقی اور قانونی فرائض ایمانداری سے ادا کریں، تو عدالتوں میں مقدمات کی تعداد میں کمی آ سکتی ہے۔ ججز اور وکلا کو بھی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو عبادت سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، جیسا کہ سقراط اور افلاطون نے سکھایا۔جان لاک (John Locke): لاک نے قانون کی حکمرانی (Rule of Law) پر زور دیا، جس کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں گڈ گورننس کے فقدان کے باعث لوگوں کو عدالتوں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جبکہ لاک کے نظریے کے مطابق ایک مؤثر حکومت کے ذریعے اس بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ژاں ژاک روسو (Jean-Jacques Rousseau): روسو نے سماجی معاہدے (Social Contract) کا تصور پیش کیا، جس کے مطابق حکومت اور عوام کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے کہ ہر فریق اپنی ذمہ داریاں نبھائے گا۔ اگر حکومت اور عوام دونوں اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کریں، تو عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہو جائے گا۔
جان رولز (John Rawls)نے انصاف کو سماجی مساوات کی بنیاد قرار دیا۔ اس کے مطابق، انصاف کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے تمام افراد کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں۔ پاکستان میں اگر لوگوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق اور سہولیات فراہم کی جائیں، تو عدالتی نظام پر بوجھ کم ہو سکتا ہے۔الگزینڈر ہیملٹن (Alexander Hamilton): ہیملٹن نے ایک مضبوط عدالتی نظام کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کے مطابق، ایک مؤثر عدالتی نظام ہی لوگوں کے حقوق کی

Comments (0)
Add Comment