کالم۔۔۔دنیا میں بے شمار لوگ آئے اور چلے گئے لیکن ان میں بعض شخصیات ایسی ہیں کہ دنیا سے جانے کے بعد انکا نام زندہ رہتا ہے اور آنیوالی نسلیں ان کے کردار و افکار سے راہنمائی حاصل کرتی ہیں،ان میں علم و عمل کا روشن مینار،علماء و مشائخ کا افتخار اور اسلاف کی یاد گار استاذ العلماء شیخ الحدیث و التفسیر حضرت علامہ مفتی ابو الضیاء غلام نبی جماعتی رحمتہ اللہ علیہ ہیں،جن کا سالانہ عرس مبارک 27 فروری بروز جمعرات آپکی یاد گار مدرسہ مجددیہ لاثانیہ رضویہ عطاء العلوم گکھڑ میں ہوگا۔سجادہ نشین آستانہ عالیہ علی پور سیداں شریف پیرسید مدثر حسین شاہ جماعتی خصوصی دعا کریں گے۔ہزاروں سینوں میں علم و عمل کے چراغ روشن کرنیواے،عظیم معلم،باکمال مدارس نیک نام استاد،بااصول باکردار،نمود و نمائش،تکبر خود ستائی لالچ و خوف طمع و ہوس سے پاک بندہ خدا،سادگی و سچائی کے پیکر استاذ العلماء علامہ مفتی ابو الضیاء غلام نبی جماعتی 23 جون 1943 کو کوٹ ہرا ضلع گوجرانوالہ میں ایک مذہبی گھرانے محمد اسماعیل کے ہاں پیدا ہوئے،ہائی سکول سوئیانوالہ سے میٹرک کے بعد مختلف دینی مدارس سے تعلیم حاصل کی،آپ کے اساتذہ میں حافظ الحدیث پیرسید محمد جلال الدین شاہ مشہدی بھکھی شریف،علامہ محمد نواز نقشبندی کیلانی،علامہ مفتی غلام رسول رضوی جامعہ رضویہ فیصل آباد،علامہ حافظ عطاء محمد بندیالوی،شیخ القرآن علامہ محمد عبدالغفور ہزاروی،علامہ محمد عنایت اللہ قادری سانگلہ ہل،علامہ عبدالحکیم مشرف قادری بطور خاص شامل ہیں،دورہ حدیث پاک جامعہ رضویہ فیصل آباد سے کیا۔1958 میں آستانہ عالیہ علی پور سیداں شریف میں حضرت پیرسید جماعت علی شاہ لاثانی کے نبیرہ اعظم حضرت پیرسید علی اکبر شاہ جماعتی کے دست مبارک پر بیعت ہوئے،آپ کی قلبی طہارت کے ساتھ روحانی نسبت بھی کامل تھی،آپ شب زندہ دار اور میدان معرفت کے مرد افتخار بھی پیر و مرشد کے وصال کے بعد سجادہ نشین نے آپ کی عبادت و ریافت اور زہد و تقوی کو دیکھتے ہوئے،آپ کو اپنی خلافت سے نوازا،علامہ مفتی ابو الضیاء غلام نبی جماعتی سچے عظیم عاشق رسول،پختہ نظریات،خلوص و وفا کے پیکر اور علم و فکر کی ایک درخشاں کائنات تھے،آپ کی زندگی اللہ اور رسول کی اطاعت میں گذری جو کہ درویشی و پارسائی کا مرقع تھی،آپ علم و معرفت کا ایک گلدستہ تھے،آپ نے درست عقائد و اعمال کیلئے بھرپور انداز میں تبلیغ کی اور اکابرین اہلسنت کے افکار و نظریات کو فروغ دینے کا حق ادا کر دیا،تحصیل علم کے بعد 19 دسمبر 1969 کو مرکزی جامع مسجد ٹھیکیداراں گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں خطیب مقرر ہوئے.آپ کی تدریسی زندگی کا آغاز برصغیر کی عظیم معیاری درسگاہ جامعہ حنفیہ رضویہ سراج العلوم گوجرانوالہ سے ہوا،24 مارچ 1970 سے لیکر گوجرانوالہ میں ولی کامل علامہ مفتی پیر ابوداؤد محمد صادق قادری رضوی کے مدرسہ میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیئے،بعدازاں گکھڑ میں مدرسہ مجددیہ لاثانیہ رضویہ عطاء العلوم جیسے معیاری دانشکدہ کا قیام عمل میں لایا گیا،جس کا افتتاح حافظ الحدیث پیرسید محمد جلال الدین شاہ مشہدی نے کیا اور طلباء کو پہلا سبق پڑھایا،حضرت علامہ مفتی ابو الضیاء غلام نبی جماعتی نے جامعہ میں اس قدر جذباتی لگن،علمی وارفتگی اور روحانی جذب و خلوص سے پڑھایا کہ جامعہ تشنگان علوم دینیہ کیلئے روحانی سکون کا مظہر بن گیا،آپ بہترین اور کامیاب مدرس تھے طلباء کو سبق سمجھانے اور بات دل و دماغ میں ڈالنے کا فن طریقہ جانتے تھے،آپ نے علمی قابلیت کا لوہا منوا کر اس درسگاہ کو اصحاب علم کے دلوں کی دھڑکن بنا دیا،آبشار علم و حکمت پاسبان آداب شریعت حضرت علامہ مفتی ابو الضیاء غلام نبی جماعتی نے تکبر وریا کاری سے بہت دور رہ کر عاجزی انکساری اور سادگی سے زندگی بسر کی،آپ نے مرضی مولا ازہمہ اولی کو زندگی کا محور و مرکز بنا لیا تھا،آپ شبانہ روز اشاعت اسلام اور دین کی خدمت میں مصروف عمل رہے،آپ بلاشبہ بہت بڑے عالم دین تھے،علوم قرآنی کے ماہر اور علم حدیث کی عظمتوں کے آشنا تھے کہ جہالت کے اندھیروں میں علم و آگہی اور رشد و ہدایت کے چراغ روشن کرتے رہے،آپ ذہانت و فطانت،حاضر جوابی کا حسین مرقع معروف علمی و روحانی شخصیت تھے،اپنے کردار کے لحاظ سے مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی نشانی اور سنت نبوی کا عملی نمونہ تھے۔بلاشبہ آپ کے شاگرد فیض یافتہ علماء کرام کی کثیر تعداد ملک کے اندر اور بیرون ملک خدمت دین میں معروف ہے،آپ کا نام تاقیامت زندہ رہے گا۔تاریخ اسلام اس امر کی شاھد ہے کہ علماء و مشائخ نے دین کی ترویج و اشاعت کیلئے ہمیشہ ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔آپ کتابوں کے مطالعہ کے نہایت شوقین تھے،درس و تدریس سے جتنا وقت میسر آتا کتب دینیہ کے مطالعہ میں صرف کر دیئے،آپ کی لائبریری قرآن و احادیث تفاسیر اور فقہی مسائل پر کتب کے بہت بڑے ذخیرے پر مشتمل ہے،آپ نے زندگی کے آخری ایام میں بیماری کا صبر و تحمل سے سامنا کیا اور اسی بیماری کے سبب ذکر خدا و رسول کرتے جان جان آفریں کے سپرد کر دی وقت اجل یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے آپ ابدی سکون کی نیند سو رہے ہیں چہرے پر ایک دائمی ملکوتی تبسم رقصاں تھا اس وقت آپ بندہ مومن کی تفسیر نظر آرہے ہیں۔آپ کے وصال کی خبر آپ کے بے شمار تلامذہ،ارادت مندوں عقیدت مندوں اور آپ سے جذباتی وابستگی رکھنے والے علماء و فضلاء مشائخ اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اصحاب پر بجلی بن کر گری،جب آپ کا جنازہ اٹھایا گیا تو چاروں جانب سو گواروں کا ہجوم ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔نماز جنازہ میں ہزاروں غم ذدہ افراد نے شرکت کی،نماز جنازہ کی امامت آستانہ عالیہ حضرت کیلیانوالہ شریف کے پیرسید علی سجادحیدر شاہ بخاری نے کی،بالآخر آپ کو مدرسہ مجددیہ لاثانیہ رضویہ عطاء العلوم گکھڑ میں سپرد خاک کردیا گیا۔جسکی فضاؤں میں آپ نے عشق رسول کی خوشبو بکھیری تھی اور جسکے درو دیوار برسوں سے آپ کی علمی و فقہی کاوشوں کے شاھد تھے۔آپ نے اپنی زندگی میں اپنے بھتیجے عالم باعمل حضرت علامہ حافظ محمد احمد رضا مصطفائی کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔