میری آپ بیتی

تحریر:سیدہ نزہت ایوب کاظمی(اسلام آباد)

یہ روداد ہے ایک ایسی خاتون کی جونظریہ رکھتی تھی کہ عورت چاہے پی ایچ ڈی ہو۔مگر ہو مکمل گھرداری نبھانے والی خاتون۔اُس کا ماننا تھا کہ پڑھی لکھی عورت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ بعد از پڑھائی کمائی کرے۔وہ کہتی عورت پر خُدا نے کمانا فرض نہیں کیا۔ وہ سوچتی کہ شہزادیء کونین سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہ کی حیاتِ طیبہ کی روشنی میں تو عورت کے لئے بہترین جگہ و مقام گھر کی چار دیواری اور بچوں کی تربیت،پرورش کا ہی درس ملتا ہے۔ اُس کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرنا اور دولت کمانا دو الگ،الگ راہیں ہیں۔وہ اس بات کی مثال اُن انگوٹھا چھاپ لوگوں سے لیتی جو ان پڑھ ہونے کے باوجود امیر ترین تھے۔وہ دیکھتی دولت تو کوئی بھی حاصل کر سکتا ہے پر تعلیم ہر کسی پر مہربان نہیں ہوتی۔
اس پر یہ راز آشکار ہو چکا تھا کہ دولت کی کمی سے زیادہ تعلیم کی کمی نسلوں کا نقصان کرتی ہے۔ایک فِکر اُس کے مَن کے بہر میں موجزن رہتی کہ اگر پڑھی لکھی عورتوں سے معاشرہ صرف اور صرف امورِ خانہ داری اور بچوں کوپالنے پوسنے کا کام لے تو یقینا معاشرے کی ہوا ہر طرح کے شَر سے پاک اور با رِدا ہو۔
وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھتے ہوئے محسوس کر چکی تھی کہ تعلیم کی کمی نے کس قدر انسانی زندگیوں کے سکون کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔
اُس کے چاروں طرف معاشرتی مسائل تو بہت تھے مگر اُن کا حل کسی کے پاس نہ تھا۔خود اُس کی اپنی زندگی بھی مسائل کی زَد میں تھی کہ وہ بھی اسی معاشرے میں سانس لیتی تھی۔
وہ خساروں کی اُس بستی میں رہتی تھی جہاں لوگ نہ خساروں کی فکر کرتے تھے، نہ ازالوں کی طرف آتے تھے۔جہاں نہ صرف پرائے بلکہ جانی و مالی نقصاں کرتے ماں جائیاں اور ماں جائے۔جہاں کے باسی عداوتوں کی وہ حد پار کر چکے کہ چھِلے و وضائف میں اپنوں بیگانوں کا برا تو چاہتے ہی چاہتے،سجدوں میں بھی نیک دِل مہرباں کے لئے موت مانگتے۔
ساری خامیاں…………..ساری ہی خامیاں تو ایک طرف جہاں کے مکیں جھوٹ تک بولنا کسی اعزاز سے کم نہ سمجھتے۔
وہ اپنے غموں سے غافل اکثر نماز میں معاشرے کی پُر خار ہوا پر رو دیتی اور دعا کرتی کہ مالکا بس اتنا کرم کر دے کہ میری نگری کے لوگ تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں۔ تعلیم حاصل یوں کریں کہ پڑھ جائیں یا مر جائیں۔وہ آرزو کرتی چاہے سڑک کنارے بیٹھا موچی ہو،مکئی کے دانے بھوننے والا ہو،چاہے کوئی پھل یا سبزی کی ریڑھی لگانے والا ہو،آئس کریم،برف کے گولے بیچنے والا ہو،یا گلیوں بازاروں میں کسی بھی قسم کی پھیری لگانے والا ہو۔ سبھی کے پاس کم سے کم ایم اے کی ڈگری ہو۔وہ جائے نماز سے اُٹھتے آخری دعا مانگ رہی ہوتی کہ یااللہ میری نگری کی عورتیں کمائی سے عاری پڑھائی کر یں اور نسلوں کی تربیت کریں۔یا پھر جو بہت مجبور کر دی جائیں یا ہو جائیں پھر اُن کا معاملہ تیرے سُپرد………..۔ فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں میں رہنے والی کنول کی آب بیتی اُسی کی زبانی۔
میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔میٹرک کرتے ہی گاؤں میں ہی شادی کر دی گئی بچے ابھی چھوٹے تھے کہ بیوہ ہو گئی۔امی جی اور ابو جان کے مشورے پر گاؤں میں ہی پرائیویٹ ا سکول کا آغاز کیا(حالانکہ میرے ساتھ ساتھ ابو جی بھی پڑھائی کے علاوہ عورت کی کمائی کے سخت خلاف تھے)ساتھ ہی دوبارہ پرائیویٹ پڑھائی کا آغاز کیا میں بی اے اور میری بیٹی نے آٹھویں جماعت پاس کر لی۔اب میں کیمپیوٹر کورس بھی کر چکی تھی۔ میرا اردو ایم اے،بیٹی کا میٹرک بیٹے کا آٹھویں اور چھوٹے بیٹے کی چہارم کا رزلٹ ایک ساتھ آیا سب نے پہلی پوزیشن لی تھی۔ کامیاب ایلیمنٹری سکول کے ساتھ ساتھ میں کیمپیوٹر اکیڈمی،ٹیوشن سینٹر تو چلا ہی رہی تھی ابو جی کے انتقال کے بعد جی اداس رہنے لگا تو (گاؤں کی خواتین کی فرمائش پر) ترجمہ تفسیر کی جماعت کا بھی آغاز کر دیا۔ویسے بھی درِ حُسین ؑسے وابستگی کی وجہ سے گھر کا ماحول شروع سے مذہبی تھا۔علاقے بھر میں میرے تعلیمی ادارے کامیابی سے اپنا سفر تمام کررہے تھے۔میرے اسکول کے بارے مشہور تھا کہ سیّدوں کے اسکول میں تو گونگے بھی بول پڑیں۔مگر دِل ہر وقت پریشان رہتا کہ کمانا میری ذمہ داری نہیں۔سوچتی میں اک عورت ہوں تعلیم حاصل تو کر سکتی ہوں مگر ہوں تو ناتواں سی عورت،سو کمانے کے لئے نہیں بنائی گئی۔حالانکہ میرے بچوں کی پڑھائی بزنس تھی پر پھر بھی میں فیصلہ کر چکی تھی۔کہ بیٹے کے بارویں کرتے ہی تمام ادارے ختم کر دوں گی۔ اسکول میں صرف گاؤں کے ہی نہیں بلکہ پانچ سے چھ گاؤں کے بچے پڑھنے آتے۔بیٹی جس کا یونیورسٹی (بی بی اے فائنانس) میں ایڈمیشن دلانے کے بعد مجھے فیصل آباد شہر سب بچوں کے ساتھ منتقل ہونا پڑا۔کچھ امی جی کے جانے کے بعد اب گاؤں میں اسکول کی حد تک تو رہنا مشکل نہ تھا مگر………..۔
آج پانچ سال ہوئے تمام ادارے ختم کر کے گاؤں چھوڑے اپنے بچوں کے ساتھ شہر میں ہی ہوتی ہوں۔بڑابیٹا تبھی سے رات میں نوکری اور دن میں پڑھائی کرتا ہے۔ ما شاء اللہ چھوٹا بھی اب یونیورسٹی میں آچکا ہے۔ مانتی ہوں میرے بڑے بیٹے کو بڑی محنت کرنا پڑی اور کر رہا ہے مگر میرے اللہ نے بھی تو اسے ایک ہی وقت میں بہت سے محاذوں پر لڑنے کے لئے پیدا فرمایا ہے (کہ وہ ایک مرد جوہے)۔میرا ایمان ہے میرا مالک اس کے ہر قدم،ہر سانس ساتھ ہے۔میرا دل پرسکون ہے،کہ گھر داری کرتی ہوں بیٹوں پر کڑی نظر رکھتی ہوں۔ہر وقت کوشش رہتی ہے گھر کا ماحول فضولیات سے پاک ہو۔بیٹوں کی کچھ یوں تربیت کرتی ہوں کہ وہ اپنی ماں،بہن کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد بسنے والی سبھی مستورات کو ماں بہن کی نظر سے دیکھیں،اور ہر پل نظر میں حیا اور دِل میں خوفِ خُدا رکھیں۔
ہاں بالکل یہ سب آسان تو نہیں مگر میرا ایمان ہے،چاہے

Comments (0)
Add Comment