“آرپار” اردو شاعری میں ایک اہم اضافہ

تبصرہ/ تحریر: ضیغم عباس گوندل

حمیدہ شاہین معاصر اُردو شاعرات میں ایک اہم اور نمایاں نام ہے۔ 25 جنوری 2025 کو یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی UMT لاہور میں ان کے فکر و فن پر بات کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں ملک پاکستان کے کئی نامور ادیبوں سمیت طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نے

 شرکت کی۔
مجھے بھی حمیدہ شاہین صاحبہ کے تازہ مجموعے ” آر پار” پر گفتگو کرنے کیلیے مدعوکیا گیا۔ وقت کی قلت کے باعث تین چار منٹ گفتگو کی اور محترمہ حمیدہ شاہین کو کتاب کی اشاعت پر مبارک دی۔ تفصی

لی تبصرہ ملاحظہ کیجیے:

” آر پار ” کی غزلوں میں ایک عجب متانت،شائستگی اور وقار ہے۔ مختلف ناقدین نے حمیدہ شاہین کی شاعری کو مشرقی اقدار کی نمائندہ شاعری قرار دیا ہے۔ میرے نزدیک ان کی مشرقیت میں بھی آفاقیت ہے؛ جدیدیت میں بھی کلاسیکیت ہے۔ ان کی شوخی میں بھی شائستگی اور وقار ہے۔
حمیدہ شاہین کی شاعری نُدرت و جدّت کے مضامین رکھنے کے باوجود روایت اور کلاسیکی شعری تہذیب سے وابستہ ہے:

رکھوں کی عہدِ گزشتہ سے خود کو وابستہ
نئے جہاں کی مسلسل خبر رہے گی مجھے

حمیدہ شاہین کے بہت سے اشعار نوکلاسیکی شعریات کے حامل ہیں۔ مضمون آفرینی، معنی آفرینی اور رمز و ایمائیت جیسے کلا سیکی غزل کے اوصاف ان کی شاعری کو مزید نکھار دیتے ہیں۔ تخلیقی ابہام، موضوعاتی تنُّوع اور مخصوص لہجے سے ان کے کلام میں ایک منفرد شعری فضا ترتیب پاتی نظر آتی ہے۔ فنّی استعداد، فکری پُختگی اور زبان و بیان پر دسترس ان کے مصرعوں کو وہ متانت اور طمانیت عطا کرتی ہے جو معاصر شاعرات کے ہاں کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ اشعار دیکھیے:

ہم غیر سمجھتے ہیں اُسے ایسا بھی نہیں خیر
ویسےتو سُنا ہے وہ کسی کا بھی نہیں خیر

گو ایک اذیت ہے ترا رنگِ تغافل
یہ رنگ کسی اور پہ سجتا بھی نہیں خیر

ترا شُمار بڑ

ھانے کو صفر ہو جاوں
مجھے بس اتنا بتا دے کہاں نہیں ہونا

سڑک کنارے کھڑے درختوں سے پوچھتی ہوں
کوئی گُزرتا بھی ہے کہ بس عادتا ہرے ہو

میں ترے کُنجِ تغافل سے نکلتی کیسے
میرا سامان اِسی کونے میں پڑا سجتا ہے

کون سمجھے گا مری بات کا پورا مطلب
کون دیکھے گا اُدھر میں نے جدھر دیکھا ہے

حمیدہ شاہین کے تحریر اور خاموش مِصرعوں میں بھی ان کی پڑھت اور مخصوص لب و لہجہ سنائی دیتا ہے۔ ان کی شخصی خوش اطواری اور خوش لہجگی ان کی شاعری میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ وہ عام معاشرتی سیدھے سادھے حقائق کو بھی ایک منجھے ہوئے ہنر مند شاعر کی طرح استعاراتی انداز میں پیش کرتی ہیں۔
ان کی غزل کی مخصوص لفظیات، علامات، منفرد تشبیہات و استعارات، موضوعاتی تنوُّع ، کائنات کو دیکھنے کا الگ زاویہِ نگاہ، لفظوں کے برتنے کا ایک خاص ڈھب، اختراعی طرز اور لسانی جدت طرازی ان کی غزل کو قدیم و جدید شاعرات کی غزل کے مقابلے میں ایک خاص پہچان اور انفرادیت عطا کرتی ہے۔
میں نے کلاسیکی و جدید شاعری کا ایک تواتر اور تسلسل سے مطالعہ کیا ہے مختلف نسائی آوازوں کو سنا/ پڑھا لیکن قدرت نے حمیدہ شاہین کو جس مخصوص آواز ، انداز اور رکھ رکھاو سے نوازا ہے اس کی مثال کہیں نظر نہیں آئی۔ وہ بلا شبہ ایک صاحب اُسلوب اور منفرد شاعرہ ہیں۔
حمیدہ شاہین سچے احساسات اور مُقدس جذبوں کی شاعرہ ہیں۔ ان کی عورت بھی مظلوم سے زیادہ خوبصورت اور باکردار ہے۔ جس میں ایک خاص وقار اور رکھ رکھاو ہے۔ جو مرد سے خواہ مخواہ الجھنے کے بجائے خود کو پہچاننے اور اپنے مقام و مرتبے کو منوانے پہ متوجہ ہے ۔وہ عورت ہونے پہ راضی ہے۔ البتہ اپنا مقام، اپنی نشست کسی کو سونپنے کےلیے تیار نہیں ہے۔ اپنی پہچان اور شناخت قائم رکھنا چاہتی ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک اعتدال، اعتماد اور متانت ہے۔

میرا وعدہ ہے کہ بنجر نہیں ہونے دوں گی
اپنی مٹی میں مرا پاوں گڑا رہنے دے

یہ موڈی چاہتیں میری سمجھ میں تو نہیں آتیں
جو دم دم ساتھ دے پائیں وہ ہمدم اچھے لگتے ہیں

یہ صفِ دل زدگاں ہے تجھے احساس رہے
تو یہاں صرف مرے ساتھ کھڑا سجتا ہے

ایک بدن کا ہوکر رہنا جس ملبوس کو راس نہ
دھجی دھجی ہوجاتا ہے آخر کھینچا تانی میں

کیسے کیسے پیراہن تھے
میں نےصِرف تجھے پہنا ہے

حمیدہ شاہین نے کچھ نامانوس ، ثقیل اور غزل کے روایتی مزاج و اُسلوب سے ہٹے ہوئے الفاظ(چچوڑے، بھنبھوڑے وغیرہ) بھی استعمال کیے ہیں لیکن انھیں بھی اس ہنر مندی اور خوش اطواری سے مصرعوں میں سمویا ہے کہ ان کی ثقالت اور کھردرے پن کا احساس تک نہیں ہوتا۔ حمیدہ شاہین کے کلام کو پڑھنے کے لیے بھی ایک خاص ٹھہراو اور مخصوص انداز کی ضرورت ہے۔

یہ پتنگیں نہیں ، یہ پرندے نہیں
خوف ہیں بس فضاوں میں چھوڑے ہوئے

میرے دکھ نے انھیں رنگ و رس دے دیا
حرف سارے ملے تھے چچوڑے ہوئے

بِھڑوں کی طرح تجھ پہ ٹوٹیں گے وہ
تیرے کُتوں کے ہیں جو بھنبھوڑے ہوئے

اکبر معصوم نے منیر نیازی کے بارے میں کہا تھا:
“ایک عجی

ب سماں ہو جیسے شعر منیرؔ نیازی کا
ایک طرف آبادی ہو اور ایک طرف ویرانی ہو”
حمیدہ شاہین کے بھی کچھ صفحات ایک حیرت کدے کا سا منظر پیش کرتے ہیں۔ اشعار دیکھیے:

جن پہ کچھ بھی نہ اترتا ہو سوائے حیرت
ان زمینوں سے تو اٹھے گی صدائے حیرت

ایک بُکل میں سمیٹیں گے نظارے سارے
ہم نے کچھ سوچ کے اوڑھی ہے ردائے حیرت

مختصرًا حمیدہ شاہین ایک صاحب اُسلوب ، منفرد لب و لہجے کی ممتاز معاصر شاعرہ ہیں۔ جن کا نہ صرف اسلوب و آہنگ الگ ہے بلکہ مضمون و معنی اور زاویہ نگاہ بھی۔ حمیدہ شاہین کی شاعری متنوع اور منفرد خیالات و لفظیات ،تشبیہات و استعارات اور علامات کی آماج گاہ ہے۔ تازہ شعری مجموعہ “آر پار” تقریبا سو کے قریب غزلوں پر مشتمل ہے اور یہ ساری کی ساری غزلیں لائقِ مطالعہ اور قابلِ داد ہیں۔ بلاشبہ ” آر پار ” اُردو غزل میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اُردو شاعری اور شاعری میں خصوصاً غزل سے محبت

Comments (0)
Add Comment