دھی رانی۔ تینوں اللہ دیاں رکھاں

تحریر۔شفقت اللہ مشتاق

ویسےتو سارے والدین کو اپنی ساری اولاد بڑی پیاری ہوتی ہے لیکن بیٹیوں کا معاملہ کچھ عجیب سا ہے۔ بیٹی پیدا ہو تو باپ کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو زندہ درگور بھی کرسکتا ہے، اپنے ہاتھوں دریا کی لہروں کے حوالے بھی کر سکتا ہے، مشتعل ہو کر ٹھیک ٹھاک ردعمل دینے کے لئے اپنی شریک حیات کو اباتبا بھی بول سکتا ہے بعض اوقات تو بات طلاق پر بھی پہنچ جاتی ہے، وین بھی کرسکتا ہے نہیں تو آبدیدہ ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے، یہ سارا اگر نہ بھی ہو تو بابل مغموم ضرور ہو جاتا ہے تاہم استثنائی صورت حال کا امکان تو رہتا ہی ہے۔ کوئی پوچھے آدم کے وارث سے آخر ہوا کیا ہے۔ کیا حوا آدم کے ساتھ آسمان سے زمین تک نہیں آئی تھی کیا اس نے برابر کے دھکے نہیں کھائے تھے کیا آدم کا گھر آباد کرنے میں اس نے اساسی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ کیا اس کے بغیر نسل انسانی کا تسلسل آگے چل سکتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ اندر سے آواز آتی ہے بات تو سوفیصد درست ہے لیکن پھر بھی ان دیکھا خوف انسان کو اپنی بیٹی کے بارے میں اچھا خاصا متفکر کردیتا ہے۔ اس ساری صورتحال کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے جس میں خوشی اور غم کا حسین امتزاج ہے۔ حوا جائی کا باپ ہے بھائی ہے خاوند ہے اور بیٹا ہے اور یہ سارے رشتے اس کے لئے کام کرتے ہیں اور اس کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ مزے کی بات ہے یہ سارے مرد ہیں اور اتنے سارے مرد اکٹھے ہو جائیں تو کوئی کسی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب کسی کے گھر بیٹا پیدا ہوتا ہے تو گھر کے مین گیٹ پر شریہیں کے پتے لٹکائے جاتے ہیں بعض اوقات تو ڈھول بجا کر اس بات کا اعلان بھی کیا جاتا ہے اور مٹھائیاں تو بانٹی ہی بانٹی جاتی ہیں۔ یہ سارا کچھ اور اس کی منطقی توجیہہ۔شاید گھر کی عورتوں کا محافظ دنیا میں آیا ہے اور ہنگامی صورتحال میں کڈھ وٹ دیوے گا۔ دانا عاشق اسی لئے کسی لڑکی سے آنکھ مٹکا کرنے سے پہلے اس کے بھائیوں کی تعداد کا شعوری طور پر جائزہ لیتے ہیں اور پھر آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں “نہیں تے ساڈی تے چپ اے”۔
یہ تو کہانی کا ایک رخ ہے جس معاشرے میں دلہن کے والدین کا معاشی ومعاشرتی مقام دیکھ کر رشتے طے کئے جاتے ہوں۔ زمینوں اور دیگر جائیدادوں کو حاصل کرنے کے لئے رشتے کئے جائیں جہاں شادی کے معاملات طے کرتے ہوئے اپنے قد سے لمبی جہیز کی فہرست والد کے ہاتھ میں تھمائی جائے۔ وہاں غریب کی بیٹی کی سدھریں۔ اف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ غریب مزدوری کرے۔ چوریاں کرے یا ڈاکے مارے۔خواب چکنا چور اور انسان مسائل اور مصائب کی بدولت چکنا چور۔ ہیر رانجھے کے لئے چوری لے کے جائے، سوہنی مہینوال کے لئے کچے گھڑے پر تر کے جائے یا پھر سیئتی اپنی مراد پانے کے لئے جتنی مرضی سازشیں کر لے۔ اساں شریکے نوں منہ وکھانا اے تے شریکا بھی کوئی نارمل مخلوق نہیں ہے۔ دھی رانی کا مکمل کچومر بلکہ بھرکس نکل چکا ہے۔ وہ مکمل طور پر پھنس چکی ہے اور اس کا باپو تو چکرا سا گیا ہے۔ چکر کوئی نارمل سائن نہیں ہوتے۔ اس کے بعد تو ” پیار دی کہانی لوکو کتھے آکے مک گئی۔۔ہاسیاں توں شروع ہوئی تے ہنجواں تے مک گئی” بہرحال بات ختم ہو گئی ہے۔ نئے سرے سے سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ نسخہ کیمیا کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شادی کی مکمل کہانی پڑھنے کی ضرورت ہے اور ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ باپ ،بیٹی، جہیز اور موجود حالات پر غوروفکر کیا جائے۔ انسان اور حیوان کے خدوخال کا تقابلی جائزہ اور ان دونوں کے انداز فکر کو بھی پیش نظر رکھنا پڑے گا اور اپنے آپ کو بطور انسان دنیا کے سامنے پیش کرنا ہو گا
ہم پاکستانی ہیں اور ہماری اپنی روایات ہیں ایک وقت تھا مشترکہ خاندانی نظام کی بدولت دھی رانیاں خاموشی سے رخصت ہو جاتی تھیں۔ چاچے مامے بانڈ نے وٹے سٹے کی شادی کے کلچر کو مضبوط بنایا ہوا تھا اور بیٹی کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے بھی وٹہ سٹہ ضروری سمجھا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب اس کے مسائل کی شدت کو محسوس کیا جانے لگا۔ تو پھر ایک نیا دور آیا جس میں مذکورہ مسئلے مسائل تو ختم ہو گئے لیکن جہیز لینے اور دینے کا طوفان بدتمیزی۔ گویا کہ ہم سب کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ اشرافیہ نے تو بہرحال اپنے بڑے ہونے کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ اور بعض سیانے ویانے دولہوں کو بھی اپنی مالی حالت بہتر کرنے کا سنہری موقعہ مل جاتا ہے۔ شادی کی شادی اور مستقبل ہر لحاظ سے تابناک۔ دوہریاں مبارکاں بلکہ مبارکاں ای مبارکاں۔ہر معاشرہ میں متمول طبقہ ہی ٹرینڈ سیٹر ہوتا ہے اور غریب طبقہ کے پاس دو ہی آپشن بچتے ہیں یا تو وہ بھی ان کے دیکھا دیکھی چاٹوں سے اپنا منہ لال کرلے یا پھر بےبسی اور چپکے چپکے رات دن آنسو بہائے۔ موخرالذکر طبقہ پر کیا گزرتی ہے یہ تو یا وہ جانتے ہیں یا ان کا رب۔ یہی وجہ ہے کہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ ایک بیٹی کو باپ نے اپنے ہاتھوں قتل کردیا یا پھر بیٹی نے تین منزلہ عمارت سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی بعض اوقات تو باپ نے پہلے بیٹی کا گلا اپنے ہاتھوں دبایا اور پھر خود کشی کرلی۔ ان سب حالات میں دھی رانی کی خیر نہیں باپو کے گھر جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھٹ گھٹ کر مرے اور پیا کے گھر جہیز کی کمی بیشی کی صورت میں مہنے اور طعنے ” چھپ جاو تاریو پا دیو ہنیر وے۔۔اساں نئیوں ویکھنی کل دی سویر وے” ایک معاشرتی مسئلے سے کتنا بڑا طوفان برپا ہو جاتا ہے ہم ہیں کہ

Comments (0)
Add Comment