مہمان راحت جان

احساس کے انداز تحریر؛۔ جاویدایازخان

مہمان نوازی اسلام کی اہم تعلیم اور خوبصورت روایت ہے جو باہمی محبت ،احترام ،اور سخاوت کا مظہر ہوتی ہے ۔ہمارے دین اسلام میں مہمان نوازی کی خاص طور پر تاکید اور ہدایت کی گئی ہے ۔کیونکہ یہ انسانی اور معاشرتی تعلقات کو ہی مضبوط نہیں بناتی بلکہ  معاشرتی ہم آہنگی اور اسلامی بھائی چارے کو بھی فروغ دینے کا باعث بنتی ہے او ر اللہ اور اس کے پیارے رسول کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہوتی ہے ۔حدیث مبارک ہے کہ ” مہمان اپنے میزبان کے لیے برکت لے کر آتا ہے اور جب وہ کھا چکتا ہے تو میزبان کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں “۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ “جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرۓ “ مگر دور جدید میں مہنگائی   ،مصروفیت اور نفسانفسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگ مہمان نوازی کی اس روایت سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں ۔کھانا پینا تو الگ  بات ہے یہاں کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ دوگھڑی مہمان کے پاس بیٹھ سکے بلکہ بعض لوگ تو مہمان کو دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں اور کسی طرح جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔مہمان نوازی کی روایت میں دن بدن کمی کے کئی اسباب سامنے آرہے ہیں  جو سماجی ،معاشی اور ثقافتی تبدیلیوں سے جڑے ہوۓ ہیں ۔آج کے دور میں معاشی دباؤ ،وقت کی کمی ،انفرا دیت پسندی کا رجحان ،ہماری ثقافتی تبدیلیاں ،خاندانی نظام میں تبدیلی  اور بلاوجہ رازداری کا وہم ، دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب منتقلی ، ڈیجیٹل  اور ورچوئل رابطے جو با لمشافہ ملاقات اور مہمان نوازی کو کم کرتے جارہے ہیں ۔ا ن سب سے بڑھ کر نئی نسل کی قرآنی تعلیمات   سے دوری اپنے اثرات دکھا رہی ہے ۔تاہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوششوں  اور بچوں کی تربیت سے  ان روایات  کو بحال کیا جاسکتا ہے ۔کاش وہ یہ جان لیں کہ “رزق کی کشادگی دسترخوان کی کشادگی سے جڑی ہوتی ہے ” مہمان کے آجانے پر اپنا دل تنگ نہ کر یں  کیونکہ  فرمان ہے کہ “مہمان اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر یہ رحمت نازل فرماتا ہے جس کو پسند کرتا ہے ” دور جدید میں مہمان نوازی بھی ڈیجیٹل ہو گئی ہے جو موبائل فون پر چاۓ اور کھانے پینے کی اشیاء کی تصاویر بھیج کرہی کردی جاتی ہے ۔

ہمارے اباجی   ہر رات کو ہم سب بچوں کو اپنے لحاف میں دبا کر ایک کہانی ضرور سنایا کرتے تھے ۔یہ وہ دور تھا جب نہ تو ریڈیو ہوا کرتا تھا اور نہ ٹیلی ویژن   اور موبائل فون کی ہی سہولت میسر تھی ۔سارے بچے اباجی کی کہانی سننے کے منتظر ہوتے تھے ۔یہ کہانی ان کی زبانی سنی تھی مگرعربی ناول سے ماخوذ   چند دن قبل یہی کہانی پھر پڑھنے کو ملی تو اپنا بچپن یاد آگیا  وہی منقول ہے ۔کہتے ہیں کہ طلوع اسلام سے قبل پورے عرب میں جہالت کو عروج حاصل تھا ۔مگرعربی روایات پر عمل پھر بھی ضرور کیا جاتا تھا ۔وہاں کے لوگ حجاج کے  قافلوں  اور مسافروں کو  لوٹنے میں بہت مشہور ہوا کرتے تھے۔ اُن کا یہ وطیرہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے علاقے کے کسی جنگل یا باغ کی آڑ میں چھپ کر بیٹھ جاتے، اور راہ گزرتے لوگوں کو لٌوٹتے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے۔ پرانے وقتوں کی بات ہے عورتوں، مردوں، بزرگوں اور بچوں پر مشتمل ایک قافلہ عرب کے کسی ایسے ہی علاقے سے گزر رہا تھاجہاں اہل علاقہ ڈاکوؤں کے روپ میں پہلے سے اُن کی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جیسے ہی یہ قافلے کے لوگ اُن کے قریب پہنچے اُنہوں نے اِن پر حملہ کر دیا اور تمام سامان کو لٌوٹنے کے بعد جاتے جاتے قافلے والوں کی طرف سے مزاحمت کرنے کی پاداش میں اُن کے دو نہتے لوگوں کو قتل کر دیا اور تلواریں لہراتے فتح کا جشن مناتے فرار ہوگئے۔ غریب قافلے کے لوگ اپنے پیاروں کی موت کا دُکھ مناتے روتے پیٹتے اپنے قافلہ سردار کے نقشِ قدم پر آگے بڑھتے گئے۔ لیکن کسی نے اُ ن کی داد رسی نہ کی اور نہ ہی اُن کے حق میں کسی نے آواز اُٹھائی۔کچھ دِنوں کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ قافلہ رات گزارنے کے لیے ایک صحرا میں ٹھہرا۔ قافلے کی عورتیں کھانا پکانے کا سامان کرنے لگیں، اور مرد حضرات آگ جلانے کیلئے اِردگرد سے لکڑیوں کا بندوبست کرنے لگے۔ رات کا وقت تھا اور آگ کی روشنی دور سے بڑی آسانی سے دیکھی جا سکتی تھی۔ کچھ ر اہ بھٹکے ہوئے بھوکے گھڑ سواروں نے آگ جلتی دیکھی تو اُس طرف آ نکلے۔ا ب اِسےقسمت کہہ  لیں یا پھر قدرت کا کھیل کہ یہ گھڑ سوار وہی ڈاکو تھے جنہوں نے اِس قافلے کو پہلے لُوٹا تھا اور پھر اُن کے دو افراد کو قتل کر دیا تھا۔ یہ سبھی نقاب پوش ڈاکو قافلہ سردار کے پاس گئے اور بولے کہ “ہم راہ بھٹک گئے ہیں، اور بہت بھوکے بھی ہیں اگر کچھ کھانے کو مل جائے اور کچھ دیر آرام کرنے کیلئے مناسب جگہ مل جائے تو بہت نوازش ہوگی سالارِ قافلہ نے فوراً اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ جلدی جلدی مہمانوں کی خاطر تواضع کی جائے اور اِس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے کیونکہ مہمان اللہ کی رحمت سے آتے ہیں۔ جب یہ ڈاکو اچھی طرح سے کھانا کھا چکے اور اپنی تھکاوٹ بھی دور کر چکے تو جاتے جاتے ایک ڈاکو سالارِ قافلہ سے بولا یقینا”اگر ہمارے چہروں پر نقاب نہ ہوتے اور آپ ہمیں پہچان لیتے تو کبھی ہماری اتنی خاطر مدارت نہ کرتے، کیونکہ آپ جانتے نہیں ہیں کہ ہم کون ہیں؟ بوڑھے سالارِ قافلہ نے مسکراتے ہوئے کہا،برخودار! بے شک تم لوگوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے ڈھانپ رکھا ہے اور رات کا اندھیرا بھی ہے۔ لیکن میں تمہارے نقابوں کے اندر چھپے ہوئے چہروں کو بھلا کیسے بھلا سکتا ہوں؟ تم سب وہی لوگ ہو جنہوں نے پہلے ہمیں لُوٹا تھا اور پھر ہمارے دو افراد کو قتل کیا تھا ۔جن میں سے ایک میرا اپنا سگا بھائی تھا۔ سالارِ قافلہ کی بات سن کر وہ ڈاکو چونک گئے اور بولے تو پھر سب کچھ جاننے کے بعد بھی آپ نے ہمارے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیوں کیا؟ تو سالارِ قافلہ بولا، “یہ تو اپنے اپنے نصیب اور ظرف کی بات ہے۔ اُس دِن ہم لوگ آپ کے مہمان تھےجو آپ سے ہو سکا آپ  نے ہمارے ساتھ کیالیکن آج آپ لوگ ہمارے مہمان  بنے ہوجو ہم سے ہو سکا وہ ہم  نے کیا، اللّہ تو سب دیکھ رہا ہے وہی اِس کا اجر دے گا۔مہمان کی تواضع اور اس کی حفاظت ہماری روایت ہے ۔

غربت اور سفید پوشی کے باوجود ہمارے اباجی اور دادا جان کی بھی یہ روایت تھی کہ وہ کبھی بھی مہمان کے بغیر کھانا نہ کھاتے تھے ۔ہمارے گھر یا ان کے دفتر یا بیٹھک میں کوئی نہ کوئی مہمان روزآنہ موجود ہوتا تھا ۔وہ کہا کرتے تھے کہ  ہمارے نبی پاک ؐ کا فرمان ہے کہ مہمان خداکی نعمت ہوتا ہے اگر کچھ بھی میسر نہ ہو تو کم ازکم ایک گلاس پانی پلا کر مہمان نوازی ضرور کیا کرو  ۔وہ کہا کرتے تھے کہ مہمان نوازی کا معاشی حالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا   یہ کوئی بوجھ نہیں فرض ہوتا ہےبلکہ یہ ہماری سوچ ہماری محبت اور ہمارے ظرف پر منحصر ہوتا ہے ۔اباجی کہتے تھے کہ مہمان نوازی  کرنے میں بھی اعتدا ل ضروری ہوتا ہے ۔” مہمان نوازی پنی  حیثیت سے زیادہ  اسراف اور اپنی  حیثیت سے کم کرنا بخیلی ہوتی ہے ” ایسا ہی حضرت امام غزالی ؒ  کا فرمان ہے کہ ” جو مہمان خود آجاۓ اس کے لیے تکلف نہ کر اور جس کو تو خود بلاۓ اس کے لیے تکلف میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھ ”  پھر فرمایا کہ ” مہمان کے روبرو تھوڑا کھانا رکھنا بے مروتی ہے اور حد سے زیادہ  رکھنا تکبر ہے “مہمان نوازی کے اسلامی اصول اگر بچوں کی تربیت اور تعلیمی نصاب میں شامل  ہوجائیں تو یہ روایت مزید پھل پھول سکتی ہے ۔ہم بچوں نے ایک دن اباجی سے مہمان نوازی کے طریقہ کار اور اصولوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ہمیں  مہمان نوازی کے اصول   سمجھاۓ کہ مہمان نوازی صرف رسم یا دکھاوۓ  کے لیے نہیں بلکہ خالص اللہ کی رضا اور خلوص نیت سے ہونی چاہیے ۔ کیونکہ اللہ نیتوں کے حال بہتر جانتا ہے ۔میزبان پر  لازم ہے کہ  اپنی استطاعت کے مطابق مہمان کی تواضع اور عزت کرۓ ۔مہمان نوازی میں   اسراف یا بوجھ ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ میزبان اور مہمان دونوں کو سہولت محسوس ہو  یعنی اعتدال کا دامن تھامے رکھو ۔ اسلامی معاشرت میں مہمان نوازی معاشرتی تعلقات کی مضبوطی کا ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف قریبی رشتہ داروں اور دوستوں تک محدود ہے بلکہ اجنبیوں کے ساتھ حسن سلوک بھی شامل ہے۔ مہمان نوازی کے ذریعے محبت، بھائی چارے، اور انسانیت کی قدروں کو فروغ دیا جاتا ہے۔ مہمان نوازی اسلامی اخلاقیات کا ایک خوبصورت پہلو ہے جو ہمیں سخاوت، قربانی، اور محبت کا درس دیتا ہے۔ہماری نئی نسل ہمارے رویے   ا ور معاملات  بڑی توجہ سے دیکھتی اور سنتی ہے  اور وہ بھی وہی کرتے ہیں جو دیکھتے ہیں  ۔اس لیے موجود وقت کا تقاضایہی ہے کہ اپنے کردار سے اپنے معاملات   اور اپنی روایات کو ان تک پہنچایا جاۓ ۔

Comments (0)
Add Comment