*رمضانُ المبارک میں مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی*

تحریر:خالد غورغشتی

چند دن بعد وہ مقدس ماہ آنے والا ہے، جس میں رحمت الہی کے پروانے تقسیم ہوتے ہیں۔ دن رات ملائکہ کے نزول ہوتے ہیں۔ مومنین سحر و افطار کر کے خوش ہوتے ہیں۔ بچے، بڑے اور عورتیں عبادات میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اللّٰہ کریم کے نیک بندے اعمال حسنہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ بلاشبہ نیکیوں کے انبار یعنی رمضان المبارک میں ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عبادات کرے۔ یہ مہینہ ہمیں نیک اعمال کرنے کا بھرپور مواقع فراہم کرتا ہے، کیوں کہ اس ماہ قرآن میں نہ صرف نیکیوں کا اجر بڑھ جاتا ہے، بلکہ رزق میں بھی اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ جس کا مشاہدہ بہ خوبی کیا جا سکتا ہے۔

اگر بالفرض ہمیں کہا جائے کہ آج تمام دُکانوں پر برینڈڈ اشیا کُھلی چھوڑ دی گئی ہیں، جو لینا چاہتے ہیں؛ آئیں مفت لے جائیں۔ ہم سب بغیر سوچے سمجھے، بنا تاخیر کیے وہاں پہنچ جائیں گے اور فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ بھی نہیں سوچیں گے کہ ہمیں کوئی بیماری، تکلیف یا بڑھاپا ہے۔ فوراً فائدہ اٹھائیں گے مگر یہ فائدہ جز وقتی ہے، جو اس دنیا میں ہی ختم ہو جائے گا۔ جب کہ نیکیوں کا اجّر ہمیشہ رہے گا۔ چند دنوں بعد وہ مہینہ آنے والا ہے؛ جس میں ہم دو سو کی چیز پانچ سو روپے میں فروخت کر کے مسجد کی طرف بھاگیں گے تا کہ کہیں جماعت نہ رہ جائے۔ آج ہماری حالت ایسی ہو چکی ہے کہ ہمیں معلوم ہوجائے کل قیامت ہے تو راتوں رات مُصّلے مہنگے ہوجائیں گے۔

حقوق العباد کا معاملہ بڑا سخّت ہے، رمضان میں عبادت کے ساتھ انسانیت کا بھی خیال رکھیں۔ مہنگی چیزیں فروخت کر کے صدقہ خیرات اور زکوتہ دینے کی بجائے ہمارے تاجر اگر اپنی اپنی مارکیٹوں اور دُکانوں کی اشیاء سستی کر دیں تو یہی ان کا امت مسلمہ پر سب سے بڑا احسان ہوگا۔ مخیر حضرات گھی، چینی اور آٹا دینے کی بجائے مالی طور پر اپنے رشتے داروں اور پڑوسیوں کو مضبوط کریں؛ تاکہ وہ رمضان المبارک میں کسی کے محتاج نہ ہوں۔ اکثر مزدور پیشہ افراد کا ماہ صیام میں کام ٹھپ ہو جاتا ہے اپنے اردگرد ضرور نظر دوڑائیں کہ کہیں کوئی بھوکا تو روزہ نہیں رکھا رہا۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا کہ نقدی دے گے تو کسی پر لگتی بھی ہے یا نہیں؟ تو محلے کے دُکان داروں سے معلوم کر کے دس بیس ضرورت مندوں کے قرضے ادا کر کے ان کی زندگی آسان بنا سکتے ہیں۔

اس ماہ مبارک میں نیکیوں کے دام ستر گنّا بڑھا دیے جاتے ہیں، اسی طرح گناہوں کا بھی معاملہ ہے۔ جس ماہ ذیشان کے آنے کی نبی پاک رجب سے تیاری شروع کر دیتے تھے۔ اللّٰہ سے مانگتے تھے کہ یااللّٰہ مجھے رمضان تک پہنچا دے۔ جب کہ ہم رجب اور شعبان سے ہی دالیں، سبزیاں اور پھل ذخیرہ اندوزی کرنا شروع کر دیتے ہیں؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی بجائے روزہ داروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر مال کمایا جا سکے۔

ان دنوں جس طریقے سے وزیر اعلیٰ مریم نواز صاحبہ فلاحی کاموں میں محترک ہیں، اگر وہ رمضان المبارک میں اشیاء خورد ونوش کو مہنگے داموں بیچنے پر سخت جرمانہ اور سزا مقرر کر دیں تو اس مسئلہ کا موثر حل بنایا جا سکتا ہے۔ اگر رمضان میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف قانونی شکنجہ تیز کر لیا جائے تو یہ باقی ایام میں خود بہ خود درست راستے پر گامزن ہوں گے، کیوں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ ہماری بَد قِسمتی ہے کہ پاکستان میں رمضان کا مہینہ ایک عام شہری کے لیے اِس خُوشی اور ثقافتی اِظہار سے زیادہ مہنگائی اور پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔ پَھل، سبزی سے لے کر لِباس و دوسری ہر شے کی قِیمت عام دِنوں کے مُقابل پہلے سے بڑھ جاتی ہیں.

اسی طرح یہ مہنگائی کم ہونے کی بجائے عید کے ایام میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ کپڑا، گوشت، چاول، کسٹرڈ، چوڑیاں، مہندی، جوتے اور مصالحہ جات دوگنا قیمت ملتے ہیں۔ وقت اور حالات کا تقاضا کہ مذہبی تہواروں اور مخصوص ایام پر اشیا مہنگی کرنے کی بجائے اصل قیمت سے پچاس فی صد کم کر دی جائیں۔ تاکہ ان مقدس ایام اور حرمت کے مہینوں کا احترام برقرار رہے اور لوگ باآسانی روح کی غذا کے ساتھ پیٹ کی بھی خوراک خرید سکیں۔

بعض نادان رمضان کے مقدس ماہ کا حترام نہیں کرتے اور ہوٹلوں پر سر عام کھا پی رہے ہیں ہوتے ہیں ان کے خلاف مقامی سخت پر سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ بڑے شہروں میں تو رمضان المبارک میں سختی ہوتی ہے۔ وہاں پر پولیس روزانہ چھاپے مارتی ہے، جب کہ چھوٹے شہروں یا بعض گاؤں میں ہوٹلوں کے سامنے ٹینٹ وغیرہ لگا دیتے ہیں۔ وہ انتظامیہ کے سامنے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اندر کوئی کام نہیں ہو رہا؛ ہر چیز بالکل بند ہے۔ پولیس کو یہ بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ ہوٹل کے اندر مسافر اور بیمار ہیں، جن کے کھانے پینے کا مسئلہ پیش آ رہا ہے۔ زیارہ تر یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ بیماروں کے لیے کھانا بنایا جاتا ہے۔ بیماری تو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور اس کی شفا بھی میرے اللّٰہ کریم کے پاس ہے۔ ڈاکٹر تو صرف وسیلہ ہوتا ہے؛ اصل میں تو اللّٰہ تعالیٰ ہی شفا دیتا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ ہم شوگر، بلڈ پریشر جیسے امراض کا شکار ہیں تو ہم روزہ نہیں سکتے۔ روزہ تو سب مسلمانوں پر فرض عین ہیں۔ جو روزے نہیں رکھتے ہیں؛ اس کے باوجود وہ لوگ دوسروں کے سامنے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان جیسا کوئی روزہ دار نہیں ہے، یہی لوگ سب کے سامنے افطاری کا سامان لے جا رہے ہوتے ہیں۔ کئی جگہ رمضان المبارک میں اتنی سختی نہیں ہوتی۔ اس لیے لوگ بے فکر ہو کر ہر چیز کھا رہے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ان لوگوں پر روزے فرض ہی نہیں۔ یہ لوگ جس طرح روزانہ کھاتے پیتے ہیں، ویسے رمضان

Comments (0)
Add Comment