ہمارے دوست جناب جبار مرزا بھی عجوبہ ء روزگار شخصیت ہیں ، تعلق نبھانے کے گر کوئی ان سے اسباق کی شکل میں سیکھے محبت کرنے والے انسان ہیں ، قامت میں قیامت کا انداز ، ماتھے کی شکنوں میں رات کے پچھلے پہر کے مدبھرے گیت ، آنکھوں میں حیا کی معصومیت ، دل میں ایمان کی حلاوت ، افکار و تصورات میں انسانی خدمت کی جھلک دکھائی دیتی ہے ، آپ اس گئے گزرے دور میں اچھے وقتوں کی حسین و جمیل نشانی ہیں ، سکوت و شگفتگی کا حسین امتزاج ہیں ، ضمیر و خمیر میں زعفرانی رنگ و نور کی چاندنی کا عکس ضمیر جعفری کی زندگی کی کتاب کا دیباچہ لکھا ہوا ہے ، مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف سید ضمیر جعفری پر خامہ فرسائی ہی نہیں کی ، ربع صدی کا طویل عرصہ جعفری مرحوم کے خاندانی نظام زندگی پر تحقیق وجستجو میں صرف کر دئیے ہیں ان کے ددھیال اور ننھیال کوائف کی جمع بندی کو اگر انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ، مرحوم ضمیر جعفری کے یٹے میجر جنرل احتشام ضمیر جنہیں مرحوم لکھتے وقت دل کانپ اٹھتا ہے مرحوم کی مرزا جبار صاحب سے بڑی عقیدت تھی اور ان کی شدید خواہش تھی کہ مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف جلد شائع ہو ،
یہ کہتے ہوئے بلبل بس موند گئیں آنکھیں
اب دور خزاں آئے یا فصل بہار آئے
محترم جبار مرزا بے شمار محاسن کا مجموعہ ہیں وہ نظر بہ ظاہر ایک انسان ہیں ، لیکن اپنی ذات میں پورا ادارہ، ایک پوری تحریک اور ایک پوری یونیورسٹی ہیں ، میں تو ان سے بے پناہ متاثر اس لئیے ہوں کہ وہ ہمیشہ چھوٹوں سے بہت محبت کرتے ہیں ، میں اس وقت عمر کے لحاظ سے چھوٹا نہیں ہوں ، لیکن ان کا رتبہ بہت بلند ہے اور وہ بڑی بلندی سے جب وہ اپنے چھوٹوں سے ملتے ہیں تو ان کے انکسار میں ، میں ہمیشہ افتخار تلاش کرتا ہوں۔ مختار مسعود نے ایسی ہی جلیل القدر شخصیات کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ لوگ آبشار کی مانند ہوتے ہیں جو بلندیوں سے یہ کہتی ہوئی نیچے آ رہی ہوتی ہے کہ اگر آپ لوگ میری سطح تک بلند نہیں ہو سکتے تو میں خود ہی نیچے اتر کر تمہاری کشت ویراں کو سیراب کرتی ہوں اور یہ حقیقت ہے جناب جبار مرزا آبشار کی مانند ہیں الطاف حسن قریشی صاحب ان کے بارے میں جتنی محبت سے بات کرتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ہم بڑی دیر تک ان کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور آج یہ کتاب جبار مزار نے مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف لکھی ہے بڑی ہی خوبصورت کتاب ہے اور الطاف حسن قریشی صاحب نے خوبصورت تحریر لکھی ہے کہ ہمارے محترم دوست جبار مرزا نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور بے پایاں شوق صحرا نوردی میں اردو ادب اور صحافت میں بڑا نام پیدا کیا ہے ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور کرم فرماؤں کی بے حد قدر کرتے اور انہیں یاد رکھتے ہیں اس کا زندہ ثبوت وہ عظیم تخلیق ہے جو انہوں نے مزاح نگاروں کے کمانڈر ان چیف کے عنوان سے ترتیب دی ہے جو ہمارے عہد کے بے بدل شاعر اور ادیب سید ضمیر جعفری کی شخصیت اور ان کے ادبی کار ہائے نمایاں کے بارے میں ہے مرزا صاحب نے سید ضمیر جعفری کے احوال بے پرواہ اور ان کے ددھیال اور نھنیال کے وسیع و عریض کووائف جمع کرنے اور ان کی نثری اور شعری تخلیقات کے محاسن چن لینے میں اپنی زندگی کے 30 برس صرف کیے جو یقیناً غیر معمولی بات ہے اس تصنیف میں اس رشتے کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جو سید ضمیر جعفری اور فوج کے مابین قائم رہا اور جس کی بدولت عظیم نظمیں اور مضامین جلوہ افروز ہوئے اس کتاب میں وہ سہرے بھی جمع کر دیے گئے جو شعری ادب میں لازوال موتیوں کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں میرے بیٹے کامران کا سہرا بھی شامل ہے جو ہمارے خاندان کی روح کو تر و تازہ رکھتا ہے بلا شبہ جناب جبار مرزا کی یہ تخلیق اردو ادب میں بہت بڑا اضافہ اور معلومات کا بیش بہا خزینہ ہے ، میں انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے عجیب خوشی محسوس کر رہا ہوں اور میں بھی الطاف حسن قریشی کے ساتھ مل کر جناب جبار مرزا کی اس کاوش کو اللہ کی نوازش کہتے ہوئے ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
مزاح ہسنے اور طنز ڈسنے کا عمل ہے مزاح ایک کار اعزاز ہے اور طنز ایک خار زار ۔۔ طنز پسماندہ معاشروں میں نشو و نما پاتا ہے اور مزاح خوشحال معاشروں میں پروان چڑھتا ہے شاعری میں جتنی وضعداری ، پردہ داری اور رکھ رکھاؤ کا تکلف ہونا چاہیے طنز و مزاح میں اتنی ہی بے تکلفی درکار ہوتی ہے پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اس میں پسماندہ اور خوشحال دونوں قسم کے طبقات موجود ہیں چنانچہ ہمارے ہاں طنز و مزاح کا سلسلہ قدم بے قدم چلتا ہے ۔۔ پاکستانی ادب شناخت کی نصف صدی غفور شاہ قاسم کی تحقیق و تنقید سے ماخوذ یہ چند سطور مستعار لی گئیں ہیں جس میں صدیق سالک ، رستم کیانی، عطا الحق قاسمی ، نظیر صدیقی، مسعود مفتی ، محمد خالد اختر، ابراہیم جلیس، کرنل محمد خان، سید ضمیر جعفری مرحوم نے فوجی زندگی اور شخصیات کو متوازن مزاجی سے دیکھا اور اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں اس پر تبصرہ کیا ضمیر صاحب کے مزاح کی ایک اور جہت وہ ہے جو اعلیٰ مزاح کے نہایت معیاری نمونوں میں پائی جاتی ہے یعنی مزاح کی تہہ میں آنسوؤں کی ایک زیریں لہر کا موجود ہونا ۔۔ نثری مزاح میں ضمیر صاحب کی نمایاں اور باقاعدہ تصنیف 15 فکاہی خاکوں پر مشتمل ان کی کتاب ۔ اڑتے خاکے،، ہے اسی طرح ان کی کتاب کتابی چہرے بھی مزاح کی نمائندہ کتاب ہے سید ضمیر جعفری مرحوم کو نظم اور نثر پر یکساں قدرت حاصل ہے انہوں نے ایک اچھی مثال قائم کی