ہمارے اباجی کہتے تھے کہ کہانیاں سننا یا پڑھنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ کہانی میں پوشیدہ پیغام کو جاننا ضروری ہوتا ہے ۔اس لیے گذشتہ روز یہ چھوٹی سی کہانی فیس بک پر نظر سے گزری تو میں نے چاہا کہ اس کہانی کا پیغام دوسروں تک بھی پہنچایا جاۓ کیونکہ ہر کہانی ایک سبق دیتی ہے اور ہر کہانی سے ہر شخص اپنی سوچ اور صلاحیت کے مطابق سبق حاصل کرتا ہے ۔ کہانی سچی ہو جھوٹی ہر کہانی کا مقصد اور نتیجہ ہمیشہ بھلائی کا درس یا سبق ہی ہوتا ہے ۔کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک درخت اور اس کے سائے کے درمیان بحث ہو رہی تھی۔ درخت نے کہا، “میں دن رات محنت کرتا ہوں، اپنے پتوں سے آکسیجن دیتا ہوں، پھل دیتا ہوں اور بارش برسا کر کر لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہوں اور کٹ کر بھی آگ جلانے کا کام دیتا ہوں ۔ سایہ مسکرایا اور بولا، “یہ سب ٹھیک ہے، لیکن جب لوگ تھک جاتے ہیں تو وہ آرام کے لیے میرے پاس آتے ہیں۔ میں انہیں سکون دیتا ہوں، اور یہ سکون تمہاری محنت کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ یہ بات سن کر درخت نے کہا، “ہم دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔ میری جڑیں زمین سے طاقت حاصل کرتی ہیں، ٹہنیاں اور شاخیں ،پھل وپھول پیدا کرتی ہیں ۔لیکن سکون دینے کی طاقت تمہارے بغیر مکمل نہیں۔لیکن سورج کی روشنی کے بغیر تم سایہ بن ہی نہیں سکتے ۔ ہر رشتے اور تعلق میں ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ زندگی میں سکون اور محبت اسی وقت آتی ہے جب ہم دوسروں کی قدر کریں۔ خوش رہیں، خود بھی مسکرائیں، اور دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کریں۔خلیل جبران کا قول ہے کہ” زندگی محبت اور تعاون کا دوسرا نام ہے اگر ہم تنہا زندگی گزارتے ہیں تو ہم زندگی کے اصل معنی کو کھو دیتے ہیں “
ربط قائم فرد ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج جو دریا میں ہے بیرون دریا کچھ نہیں
کہتے ہیں کہ ہم سب ایک ایسے معاشرتی نظام کا حصہ ہیں جہاں ہر فرد کے اعمال اور فیصلے دوسروں پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔اجتماعی ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کے مفادات کو سمجھیں اور ایک دوسرے کاساتھ دیں ۔دنیا کا نظام ایک خوبصورت توازن پر مبنی ہے جہاں ہر انسان چیز اور عمل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے ہم ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہی بنے ہیں اور یہی باہمی انحصار زندگی کو با معنی اور با مقصد بناتا ہے ۔قدرتی نظام بھی اسی اصول پر چلتا ہے ۔پودے آکسیجن دیتے ہیں جانور دودھ دیتے اور کھاد بناتے ہیں اور انسان دونوں کے سہارے جیتا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ اکیلے خوشی پانا اور خوشی منانا ممکن نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کو اپنی خوشی میں شامل کرنا اور دوسروں کے لیے کچھ کرنے سے حقیقی خوشی اور اطمینان حاصل کرنا ہی زندگی کی خوبصورتی ہے ۔انسان فطرتا” ایک معاشرتی مخلوق ہے اور اس کی زندگی کا اصل مقصد دوسرے انسانوں کے ساتھ جڑ کر ایک مکمل تصویر بنانا ہے ۔اکیلا انسان اپنی صلاحیتوں ،خوابوں ،اور جذبات کے باوجود ادھورا رہتا ہے کیونکہ انسان کی تکمیل دوسروں کےساتھ تعلقات محبت تعاون اور خدمت سے ہی ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی کے ساتھ اپنی خوشی بانٹتے ہیں تو ہمیں ایک عجیب سا سکون اور اطمینان محسوس ہوتا ہے اور اگر دکھوں میں شامل ہوا جاۓ تو آپس کے دکھ کم ہو جاتے ہیں ۔دوسروں کے ساتھ جڑے ہونے سے ہم اپنی ذات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور زندگی کے اصل معنی کا ادراک کرتے ہیں ۔مولانا رومی ؒ کہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوۓ ہیں تو کسی ایک کی خوشی یا غم پوری انسانیت پر اثر ڈالتی ہے ۔حدیث مبارک ہے کہ”اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل یہ ہے کہ کسی مسلمان کو خوشی دو ،یا پھر اس کی تکلیف دور کرو، یا اس کا قرض ادا کرو ،یا اس کی بھوک مٹاو ”
یہی ہے عبادت یہی دین وایماں
کہ کام دنیا میں انساں کے انساں
انسانی تعلق زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں ۔یہ بہت خوبصورت سوچ ہے اور حقیقت میں ہماری زندگی کا بنیادی فلسفہ بھی یہی ہے ۔ہم سب ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں اور یہ احساس ہی ہماری زندگیوں میں محبت سکون اور مقصد کے خوبصورت رنگ بھرتا ہے ۔دنیا کی ہر بڑی کامیابی ہر خوبصورت لمحہ ،اور ہر مضبوط رشتہ اسی اچھی سوچ کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے اور زندگی کا حسن تب ہی سامنے آتا ہے جب ہم دوسروں کے ساتھ جڑ کر ایک دوسرے کء دکھ درد بانٹیں ،خوشیوں کو تقسیم کریں اور مل جل کر آگے بڑھیں ۔یہ شاید وہ سوچ ہے جو انسانیت کو ایک بہتر سمت میں لے جاسکتی ہے ۔ رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے کہ ” رحم کرنے والوں پر اللہ رحم فرماتا ہے تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔سوا ل یہ ہے کہ انسانیت کے اس فلسفے کو عملی زندگی میں کیسے اپنایا جا سکتا ہے ؟
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
اس مثبت سوچ اور نیک ارادے کو پورا کرنے اور پروان چڑھانے کے لیے سوچ کی تبدیلی اور اپنی ذاتی اصلاح کے ساتھ ساتھ چند اقدمات پر غور کیا جاسکتا ہے ۔جیسے دوسروں کے جذبات و حا لات کو سمجھنااور ا ن سے اظہار ہمدردی کرنا اپنی اپنی مشکلات کے باوجود دوسروں سے باہمی تعلق کو مضبوط بنانا ۔دوسروں کے مسائل سننے اور سمجھنے کی عادت ڈالنا اور اپنا قیمتی وقت اور مشورہ کسی کو دینا توجہ دینا کیونکہ توجہ دینا محبت دینے سے بھی زیادہ بہتر ہوتا ہے ۔باہمی رابطے اور تعلقات کو مضبوط رکھنا ۔ایک دوسرے کی عزت واحترام کرنا ۔لوگوں کی غلطیاں معاف کردینا ۔بخشش اور درگزر کی عادت ڈال کر اپنے دلوں کو صاف رکھنا۔انفرادی اور اجتماعی شعور اور تعلیم پیدا کرنے کی سعی کرنا ۔یہ چند چھوٹے مگر گہرے اقدمات ہمیں ایک دوسرے کے قریب لا سکتے ہیں اور اس دنیا کے منظر نامے کو بہتر اور خوشحال بنا سکتے ہیں ۔یاد رہے کہ تاریخ میں وہی لوگوں ہمیشہ زندہ رہتے ہی جو اس فلسفے پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارتے ہیں ۔ہمارے اباجی کہا کرتے تھے کہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہنے کا راز خدمت انسانیت میں پوشیدہ ہے ۔خدمت انسانیت بہترین عبادت ہے ۔فرمان حضرت علی کرم اللہ وجہ ہے کہ” لوگوں کے ساتھ ایسے رہو کہ اگر زندہ رہو تو وہ تم سے محبت کریں اور مر جاو تو تمہارے لیے دعا کریں “
آئیں انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک دوسرے کو مکمل کریں تاکہ ایک بہتر اسلامی اور انسانی معاشرہ تشکیل پا سکے ۔اپنے تمام رشتوں کی حفاظت کریں چاہے وہ خون کے ہوں یا احساس کے ہوں کیونکہ فرمان رسول ہے کہ “تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ایک اور حدیث میں فرمایا کہ ” مسلمانوں کی مثال ایک دوسرے کے ساتھ محبت رحم اور ہمدردی میں ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے “۔ مولانا روم ؒ کہتے ہیں کہ پھول ،کانٹے ،خوشبو اور خاک سب جڑے ہیں ،اس محبت کے بغیر یہ دنیا ویرا ن ہے ۔” آج ہمار ے ملک و قوم کو آپس میں جڑنے اور ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔یہ جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا ۔بےشک بڑی قومیں ہمیشہ باہمی اتحاد اور یکجہتی سے ہی بنتی ہیں ۔ہمار ادین ہمارے کردار سے ظاہر ہونا چاہیےکیونکہ فرمان ربانی ہے کہ “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو “