تجاوزات کا خاتمہ ۔۔راستے کشادہ آمد ورفت آسان ۔۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے وژن کے مطابق پورے پنجاب میں تجاوزات کے خاتمے کی یہ مہم پورے زور شور سے جاری ہے جو یقینا” قابل تحسین ہے ۔گو وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے ایک سالہ دور اقتدار میں اپنے آپ کو عوام کا صیح خادم ثابت کرنے کے لیے ہر شعبہ زندگی میں اصلاحات کی کوشش کی ہے جو قابل ستائش ہے ۔خاص طور پر نوجوانوں اور طلبہ کے لیے ان کی کاو شیں قابل تعریف ہیں جو انہیں میاں نواز شریف کا صیح سیاسی جان نشین ثابت کرتی ہیں ۔ وہ نواز شریف کی طرح سڑکوں اور راستوں کی اہمیت اور صفائی کی افادیت کو خوب چھی طرح جانتی ہیں ۔کسان کارڈ ،صحت کارڈ ،مینارٹی کارڈ کے اجرا پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے انٹرن شپ ،پرائس کنٹرول اور آوٹ سورس سکولوں جیسے مشکل اقدامات کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے گذشتہ ماہ دسمبر میں پانچویں دفعہ تجاوزات کے خاتمے،صفائی کا حکم دیتے ہوۓ انتظامیہ کو سات دن کی وارننگ بھی دی ہے کہ اس دوران میں پورا پنجاب انہیں مکمل صاف چاہیے ۔یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور ان کا مشکل ترین انقلابی فیصلہ ہے جس پر عمل درآمد انتظامیہ کے لیے بھی اتنا آسان نہیں ہو گا ۔بہر حال اس فیصلے پر بڑی تیزی سے کام جاری ہے اور شہروں کی صورتحال بدل رہی ہے ۔یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی سڑکیں اور بازار ہیں جہاں سے گزرنا مشکل ہوتا تھا ۔تجاوزات کے خاتمے سے ایک جانب تو ٹریفک کی روانی میں بہتری آئی ہے اور شہریوں کو آسان آمد ورفت اور خریداری کی سہولت ملی ہے تو دوسری جانب صفائی ستھرائی کی باعث سڑکوں اور بازاروں کی اصل خوبصورتی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ تجاوزات کے خاتمے کے بعد دکانوں کے سامنے کے بےہنگم اور اضافی چھپڑوں کو گرا کر ایک یکساں ماڈل کے تحت ترتیب دینے کا پروگرام ہے جو شہر کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنے گا اور شہریوں کو ایک بہتر ماحول فراہم کیا جاسکے گا ۔ شہریوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے اس اقدام کو سراہا ہے اور امید یہ کی جارہی ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کا تسلسل برقرار رکھا جاۓ گا اور شہر کو ہر طرح کی تجاوزات سے مکمل طور پر پاک کرکے اس عمل داری کو بھی یقینی بنایا جاۓ گا اور قبضہ مافیہ کو دوبارہ اس کی اجازت نہیں دی جاۓ گی ۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے خیمہ بستیاں متبادل مقامات پر منتقل کرنے اور سنگل لائن ریڑھی بازار کے قیام اور اس کی پابندی کو بھی یقینی بنانے کا حکم دیا ہے تاکہ غریب ریڑھی والوں کا روزگار متاثر نہ ہونے پاۓ ۔صفائی کو مدنظر رکھتے ہوۓ صوبے بھر میں ” نو ٹو پلاسٹک ” مہم کی کامیابی یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے ۔سڑکوں پر بائیک لین مقرر کرنے اور چینی ماڈل کے تحت جنگلہ اور چھوٹی دیوار سے الگ کرنے ،بائیک سوار کے لیے ہیلمٹ ،بیک لائٹ اور انڈیکیٹر وغیرہ کی پابندی ضروری بنانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو تجاوزات کے خاتمے سے تکالیف کا سامنا کرنا پڑے لیکن ایک دفعہ تو یہ کڑوا گھونٹ نگلنا ہی پڑے گا ۔کیونکہ یہ کسی ایک فرد کا مسئلہ نہیں ہے پورے ملک اور ہر شہر کے لوگوں کا مسئلہ ہے۔یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک تجاوزات کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا ۔سب سے اہم یہ ہے کہ تجاوزات کے ختم ہونے کے بعد پھر سے انہیں قائم نہ ہونے دیا جاۓ ۔روک ٹوک اور مسلسل مانیٹرنگ کا ایسا نظام بنایا جاۓ جو ان تجاوزات کو دوبارہ قائم ہونے سے روک سکے ۔کیونکہ اس سے قبل بےشمار آپریشن کئے جاچکے ہیں لیکن لیکن تھوڑے عرصے میں نئی تجاوزات قائم ہو جاتی ہیں ۔ناجائزتجاوازت کا خاتمہ یقینا” ایک بڑا مشکل اور سخت فیصلہ ہے مگر اس سے بھی زیادہ سخت اور مشکل فیصلہ ان تجاوزات کا دوبا رہ بحال نہ ہونے دینا ہو گا ۔کلین اور گرین پاکستان کا وزیر اعلیٰ کا یہ خواب تب ہی پورا ہو پاۓ گا ۔
میرے تجاوزات اور صفائی کے بارے میں کئی اردو کالمز اور آرٹیکل شائع ہو چکے ہیں جن میں سے ایک آرٹیکل “فٹ پاتھ کی تلاش ” اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا تو اسے بڑا سراہا گیا ۔جس میں ان تجاوزات کے بارے میں تفصیل سے لکھا گیا تھا کہ ملک کا ہر چھوٹا بڑا شہر اس مسئلے کا شکار ہے اور اس آرٹیکل میں تجاوزات اور آلودگی کا آپس میں تعلق بھی بتایا گیا تھا اور اس کے خارتمہ کی بارے میں چند مثبت تجاویزات بھی پیش کی تھیں ۔ ہمارے شہروں میں بہت سے دکانیں اور مارکیٹیں اپنی حد سے اس قدر تجاوز کرچکی ہیں کہ پیدل چلنے کے راستے بند ہو رہے ہیں ۔اس آرٹیکل میں سڑکوں اور بازاروں کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھوں پر کاروبار کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کی اپیل کی تھی ۔امید ہے کہ حکومت پنجاب کا تجاوزات اور صفائی کا یہ عزم سلسلہ وار فٹ پاتھوں اور شہر کی گلیوں تک بھی ضرور پہنچے گا جہاں بڑی بڑی اور چوڑی گلیوں کو لمبے چوڑے تھڑۓ بنا کر تنگ کردیا گیا ہے ۔اگر ہمارۓ علاقے کی میونسپلٹی چاہے تو یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے ۔معروف سڑکوں بازاروں اور مارکیٹوں کے علاوہ گلی محلوں میں ہر جگہ پختہ وعارضی ہر دوقسم کی تجاوزات نے شہریوں کا جینا مشکل کیا ہوا ہے ۔جو آمد ورفت میں رکاوٹ کے علاوہ فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے ۔وزیر اعلی پنجاب کا یہ فیصلہ اندھیرۓ میں ایک امید کی کرن کی طرح ہے ۔ایک جانب تو ہمارے ہی گھروں کے تھڑے اور سیڑھیاں گلیوں کو تنگ کردیتی ہیں تو دوسری جانب سیوریج کا ناقص انتظام گلیوں کو گندے پانی سے بھر دیتا ہے ۔میونسپلٹی کا عملہ سیوریج کی سالانہ فیس تو وصول کرتا ہے مگر صفائی کا عملہ کبھی کبھارہی دکھائی دیتا ہے ۔ہم اپنے گھروں کا پانی سڑکوں اور گلیوں میں پھیلانے سے ذرا بھی دریغ نہیں کرتے اس لیے ہماری گلیاں اکثر گندے پانی سے بھر جاتی ہیں ۔ہماری درخواست ہے کہ اس طرح کے آپریشن کا دائرہ کار شہر کی سوسائٹیز اور کالونیوں تک دراز کرکے بلا تفریق ناجائز قابضین اور تجاوز کرنے والوں کی سدباب کیا جاۓ ۔ صفائی کے میونسپلمقامی اداروں کو علاقائی صفائی کے لیے پابند کیا جاۓ ۔
ہم وزیر اعلیٰ پنجاب کے تجاوزات اور صفائی کے اس مشن کے شروع کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔اور امید کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں کئے جانے والا آپریشن لوگوں کے آسانیا ں پیدا کرۓ گا ۔اسے کسی صورت بھی لوگوں کے لیے آزار کا باعث نہیں بننے دیا جاۓ گا ۔ہمیں بطور پاکستانی انفرادی اور اجتماعی طور اس مثبت حکومتی مہم کا حصہ بننا چاہیے ۔اس سلسلے ہر طرح کی سیاسی و سماجی وابستگی سے قطع نظر عوامی شعور بیدار کرنے لیے ہر سطح پر حکومت کے شانہ بشانہ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمارے میڈیا ، سوشل میڈیا ،مدرسوں ، اور مسجد ومنبر سے اس شعوری بیداری پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔امید ہے کہ ناجائز تجاوزات کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب کا یہ مشن ضرور کامیابی سے ہمکنار ہو گا ۔یاد رہے کہ کھلی اور صاف ستھری سڑکیں ہمارے کھلے دلوں کی علامت ہوتی ہیں ۔بےشک صفائی نصف ایمان ہے ۔