خطیب اور شاعرہ کی کتب کے ساتھ شام

منشاقاضی حسب منشا

مجھے جو دعوت نامہ یو ایم ٹی ادبی بیٹھک کی جانب سے ملا ، وہ پروفیسر ایم اے رفرف کے ساتھ ایک نشست کے حوالے سے تھا ان کی کتاب علم ، عالم اور عالم پر تھی جس کی تقریب رونمائی اور پذیرائی کی رسم یو ایم ٹی ادبی بیٹھک میں تھی وہاں جا کر پتہ چلا کہ اوصاف حمیدہ سے متصف ایک نامور شاعرہ محترمہ حمیدہ شاہین کی کتاب اور حمیدہ شاہین کے ساتھ ایک شام کا بھی اہتمام موجود ہے جس نے اور زیادہ دلچسپی پیدا کر دی جناب احمد نصراللہ یو ایم ٹی کی نیک نامی کے چلتے پھرتے سفیر ہیں اور محبت سے بھرے ہوئے انسان ہیں ان کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے تمام چاہنے والوں کو چاہت کے سمندر میں رکھیں، بہت خوبصورت عادتوں کے دل فریب انسان ہیں پھر ان کا جو نظامت کے حوالے سے انتخاب تھا وہ حسن انتخاب تھا ، ہمارے دل نواز دوست جناب نواز کھرل جو بولتے نہیں موتی رولتے ہیں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے نظامت کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے حفظ مراتب کا خاص خیال رکھا مجھے اس وقت علم عالم اور عالم کے حوالے سے پروفیسر ایم اے رفرف کے بارے میں بات کرنی ہے یہ عجیب اتفاق تھا کہ ایک خطیب اور شاعرہ دونوں کو بڑی خوبصورتی سے ایک جگہ پذیرائی ملی ویسے بھی افلاطون سے لے کر شبلی نعمانی تک تمام مفکرین نےخطابت کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا ہے خطابت ایک ایسی ساحری ہے جو سامع کو اپنا اسیر کر لیتی ہے خطیب اپنے بسیط الفاظ سے سامع حواسِ خمسہ پر قبضہ کر لیتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سامع کے تمام تر جذبات و احساسات خطیب کے قبضے میں آ جاتے ہیں اور وہ جب چاہے سامع کو ہنساتا اور جب چاہے رولا دیتا ہے شاعر اور خطیب میں ایک نازک سا فرق یہ ہوتا ہے کہ شاعر اپنے اور قاری کے جذبات کو آمیخت کرتا ہے اور پھر اپنی شاعری کو با اختیار بناتا ہے جبکہ خطیب صرف الفاظ کے اتار چڑھاؤ سے سامع کے دلوں پر حکمران ہو جاتا ہے اور اسے اپنے الفاظ کا تابع بنا کر آنکھ کی پتلی کے طرح پھیرتا رہتا ہے بقول آتش

پھرتا ہوں پھیرتا ہے وہ پردہ نشیں جدھر

پتلی کی طرح سے میں نہیں اختیار میں

شاعر لفظوں سے طوطا مینا بناتا ہے اور خطیب اپنے الفاظ سے طوطا مینا میں جان ڈال کر سامع کے سروں پر بٹھا دیتا ہے معروف دانشور حکیم ارسطو نے بھی خطابت کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے تاہم اس نے شاعری کو خطابت پر نہ صرف فوقیت دی ہے بلکہ خطابت کو شاعری کا محض جزو قرار دیا ہے شاعری دراصل کومل جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہے شاعر اور قاری دونوں کے نازک اندام دلوں میں گداز پیدا کرنا شاعری کا اولین فرض ہے ۔ اس کے برعکس خطیب پرتجمل اور گھن گرج والے الفاظ استعمال کر کے سننے والوں کے دلوں کو دہلانے کا فریضہ بطریق احسن ادا کرتا ہے خطیب کی خطابت عارضی طور پر دلوں کو مسحور کرتی ہے لیکن شاعری کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں شاعر اپنے قاری کے وجود میں دل جب کہ خطیب کان کے ذریعے داخل ہوتا ہے سنی ہوئی بات زیادہ دیر تک حافظے کی زینت نہیں بن پاتی جبکہ دل پر اثر ڈالنے والا شعر تاحیات حلاوت بخشتا رہتا ہے خطیب کی گفتگو کا محاصل واعظ و نصیحت ہوتا ہے کہ جبکہ شاعر تسکین پہنچانے کا متمنی ہوتا ہے ظاہر ہے کہ تبلیغ اور واعظ و نصیحت سے انسان اکتا جاتا ہے جبکہ سکون بخش شاعری سے انسان لطف اندوز ہونے کی شعوری کوشش کرتا ہے یہ بات بلا شک و شبہ بلا تردد کہی جا سکتی ہے کہ ایک انسان پر کسی بھی بلند پایا خطیب کی سیکڑوں تقاریر بھی وہ اثرات مرتب نہیں کر سکتیں جو کسی ایک شاعر کا ایک شعر مرتب کر دیتا ہے تاہم یہ بات پیش نظر رہے کہ اپنے ثمرات و نتائج کے اعتبار سے یہ دونوں قوتیں تخلیق کار کے لیے مفید اور کارآمد ہوتی ہیں اور تخلیق کاروں کو ان سے بے بیش از بیش فائدہ اٹھانا چاہیے اور آج ہم نے بھرپور فائدہ اٹھایا خطیب کی خطابت سے اور شاعرہ کی شاعری سے حمیدہ شاہین کی شاعری میں ساحری اور پروفیسر ایم اے رفرف کی خطابت میں حلاوت اور واعظ و نصیحت کے کئی ابواب موجود تھے انہوں نے علم ، علم اور عالم کے حوالے سے گفتگو کی اس کی جستجو میں سامعین کی آرزو جاگ اٹھی ، حفیظ طاہر اور حمیدہ شاہین کے شریک حیات محترم المقام جناب ڈاکٹر ضیاء الدین جنہوں نے اپنی شریک حیات کے حوالے سے گفتگو کی اور حقیقت یہ ہے کہ ایک مثالی اور خوبصورت گفتگو تھی حمیدہ شاہین بجا طور پر کہہ سکتی ہیں کہ

میرا کمال میرا ہنر پوچھتے ہیں لوگ

ایک باکمال شخص میری دسترس میں ہے ۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر جناب غلام حسین ساجد مہمان اعزاز اور خوبصورت گفتگو کرتے ہیں، آج مجھے مدت مدید کے بعد یو ایم ٹی کی ادبی بیٹھک میں جانے کا اتفاق ہوا اس سے پہلے ڈاکٹر عمرانہ مشتاق ہمیشہ بلاتی تھی اور آج احمد نصراللہ نے بڑی محبت سے بلایا اور پروفیسر رفرف کی کتاب علم ، علم اور عالم کی مقبولیت اور افادیت کا عالم یہ ہے کہ سب سے زیادہ خریدی جانے والی کتاب کا اعزاز حاصل ہوا ہے اس اعزاز پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں ، یو ایم ٹی ادبی بیٹھک کا ہال تنگی ء داماں کی شکایت کر رہا تھا احمد نصر اللہ کی تعلقات عامہ میں پی ایچ ڈی اسی بات کی غماز ہے کہ انہیں یہ سلیقہ اور قرینہ آتا ہے لوگوں کو بلانے کا، ہر آدمی اپنی جگہ ایک ادارہ اور ایک بہت اعلیٰ پائے کے لوگ تھے ملک کے نامور ادیبوں شاعروں، انشاء پردازوں ، ڈرامہ نگاروں، صحافیوں اور محققین کو سامعین کی صفوں میں بٹھا دینا یہ احمد نصر اللہ ہی کا کام ہے وگرنہ یہ بہت مشکل کام ہے اس سلسلے میں محترمہ نوشابہ حسن

Comments (0)
Add Comment