اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا ماہدہ طے ہوا اور قیدیوں کے تبادلے کا پہلا مرحلہ بھی مکمل ہوا اس جنگ بندی میں اہم کردار امریکہ کا ہے امریکہ جنگ بندی کے حق میں نہیں تھا کیونکہ چار دفعہ سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قراردادوں کو امریکہ نے ہی ویٹو کیا تھا۔ امریکہ اور اتحادیوں کے اسلحہ کے زور پر ہی اسرائیل فلسطینیوں کی بھیانک اور دل سوز طریقے سے نسل کشی جاری رکھے ہوئے تھا۔ جنگ کو رکوانے میں عالمی ادارے بے بسی کا منظر پیش کر رہے تھے جیسے کہ عالمی عدالت برائے انصاف جس میں دسمبر 2023 میں ساؤتھ افریقہ نے 5 ہزار صفحات پر مشتمل ثبوتوں کے ساتھ مقدمہ کیا جو کہ نسل کشی کے ناقابل تردید ثبوتوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے بعد 14 دوسری ریاستوں جن میں سپین اور ترکی بھی شامل ہیں عالمی عدالت برائے انصاف کے آرٹیکل 63 کے تحت کاروائی کا حصہ بنے۔ اسرائیل نے امریکہ کے قانون دانوں کے ذریعے ساؤتھ افریقہ پر کیس کو واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی رول بیس آرڈر نہیں ہے۔ جس کی اکثر اوقات رٹ لگائی جاتی ہے۔ امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ اینٹونی بلنکن نے اس مقدمہ کو نا انصافی پر مبنی کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔ ایسے بیانات بین الاقوامی قانون اور اقدار کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہیں ۔ سابقہ امریکی صدر اور اس کی ایڈمنسٹریشن اس کی انتظامیہ نے اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے تمام اخلاقی قانونی اور بین الاقوامی قانون کو بالائے طاق رکھ کر اس کے دفاع کے حق کا بیانیہ گردانتے تھے۔ اسی طرح انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی کاروائی کا آغاز کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں نیتن یاہو اور ڈیفنس منسٹر کے گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے۔ امریکہ نے اس کی بھی بھرپور مخالفت کی ابھی جنوری 9, 2025 کو امریکہ کے ایوان نمائندگان میں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے گرفتاری کے احکامات جاری کرنے کے رد عمل میں اس پر پابندیاں لگانے کے لیے ووٹنگ کی گئی ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ یہ دباؤ کا طریقہ کار کہاں تک کارگر ہوتا ہے۔ اوپر منظر نامہ واضح کرنے کا مقصد یہ تھا کہ امریکہ تو تمام اداروں پر جو اسرائیل کے خلاف کسی بھی کاروائی کے لیے آگے بڑھتے تو ان پر کس طرح دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے اور جنگ بندی کی کوششوں کو مسترد کیا گیا۔ تو ایسے میں اچانک امریکہ کیسے جنگ بندی پر رضامند ہوا اور نیتن یاہو کو بھی فوری طور پر چند بندی کے لیے آمادہ کر لیا گیا وہی امریکہ اور اسرائیل جو کسی قانون قاعدے اخلاقیات سے بالاتر ہو کر جنگ بندی پر مائل نہ تھے۔ تو ایسے حالات میں جنگ بندی کا ماہدہ حادثاتی طور پر وجود میں آیا ہے اس کی وجہ امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں آگ ہے۔ اس آگ کو قدرت کی طرف سے ایک وارننگ سمجھا گیا۔اب سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ تو سیکولر ریاست ہے اور ریاست کے معاملات میں الہیہ کے تصور کو کس طرح جگہ دے سکتے ہیں۔یا یہ امریکہ میں کوئی نئی یا پہلی قدرتی آفت نہیں تھی۔جہاں تک مذہب کا تعلق ہے امریکہ کے سابق صدر بش جونیئر دہشت گردی کی جنگ کے دوران اس میں مذہبی تعبیر اس کی مذہبی تعبیر بھی پیش کرتے رہے۔ مگر یہ پہلی قدرتی آفت ہے جس نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کا نقصان پہلے سے کہیں زیادہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ ایلیٹ کلاس متاثر ہوئی ہے۔ انسان چاہے کتنا ہی ظالم کیوں نہ ہو اس کے اندر کہیں نہ کہیں انصاف کی آواز موجود ہوتی ہے امریکہ کو فلسطین میں پھیلائی ہوئی آگ کی حدت اپنے گھر میں محسوس ہوئی اور فوری جنگ بندی کا ماہدہ تکمیل کو پہنچا۔ ورنہ امریکہ تو ابھی تبدیلی کے مرحلہ میں تھا جس میں بائیڈن انتظامیہ رخصتی پر تھی اور ٹرمپ انتظامیہ نے ابھی حلف نہ لیا تھا۔ یہ کس طرح ممکن تھا کہ اس ٹرانزیشن کے پیریڈ میں ماہدہ طے پا جائے۔ گو کے صدر ٹرمپ جنگ بندی کا کریڈٹ اپنی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ یہ بات تو ایک حد تک درست ہے کہ صدر ٹرمپ جنگی جنون رکھنے والی ذہنیت کے مالک نہیں ہیں۔ مگر وہ اسرائیل کی کاز کو بھی متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ دیوار گریہ پر وہ بھی ماتھا ٹیک چکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اسرائیل کو جنگ بندی ماہدہ کے لیے کہاں تک کاربند رکھ سکتے ہیں کیونکہ اسرائیل کے وزیراعظم نے نیتن یاہو جنگ بندی ماہدہ کو عارضی قرار دے رہے ہیں۔ جنگ بندی ماہدہ کے ہونے کے باوجود ابھی بھی فلسطینیوں کو مختلف بہانے بنا کر شہید کیا جا رہا ہے۔ تا ہم امید یہی کی جا سکتی ہے کہ ٹرمپ اسرائیل کو بایئڈن انتظامیہ کی طرح بے لگام کھیلنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ابراہیم ماہدہ کی دوبارہ تجدید کچھ رد و بدل کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ صدر ٹرمپ ایک سیاستدان سے زیادہ کاروباری ذہنیت رکھنے والا شخص ہے۔ اس کی بنیادی پالیسی امریکہ فرسٹ ہے۔ اس بات کو اسرائیل بھی بخوبی جانتا ہے کہ وہ پہلے کی طرح امریکی امداد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی کسی بڑی اور طویل جنگ کے لیے امریکہ پہلے کی طرح اس کی مدد کر سکے گا۔ تاہم اسرائیل ایک تو اب مظلومیت کا کارڈ کھیلے گا جس کو وہ پہلے بھی استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ جیسے کہ یہود دشمنی دوسرا وہ امریکہ کو حماس، ایران اور حزب اللہ کے حوالے سے ایک بڑا خطرہ قرار دے کر دباو ڈالنے کی پالیسی جاری رہے گی۔